خزائن الحدیث |
|
ترجمہ:اے اللہ! ہمارے دلوں کے تالوں کو کھول دے اپنے ذکر کے ذریعہ۔ اللہ کے ذکر سے کبھی غافل نہیں ہونا چاہیے۔ ذکر دراصل ایک کنجی ہے جس سے دل کا قفل(تالا) کھلتا ہے اور طاعت و فرماںبرداری میں جی لگتا ہے اور اس کے لیے جذبہ پیدا ہوتا ہے پھر اس کنجی کے دندانے کو بھی درست رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ دل کا قفل آسانی سے کھلے، کوئی مشکل اور دشواری پیش نہ آئے۔ اور ذکر کی کنجی کے دندانے کو درست رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ ذکر وفکر اور توبہ کو خشوع و خضوع کے ساتھ کیا جائے، ایسے ہی ذکر کے خاطر خواہ اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ذکر کی کنجی کی جو بات میں نے کہی ہے وہ اپنی طرف سے نہیں کی بلکہ اس کی دلیل حدیث میں موجود ہے، ارشاد ہے:اَللّٰھُمَّ افْتَحْ اَقْفَالَ قُلُوْبِنَا بِذِکْرِکَیعنی اے اللہ! ہمارے دلوں کے تالوں کو کھول دے اپنے ذکر کے ذریعہ۔ ذکر میں صرف کمیت یعنی مقدار و تعداد مطلوب نہیں ہے بلکہ کیفیت بھی مقصود ہے ، یعنی اللہ کا خیال اور دھیان جس قدر ذکر میں جمایا جائے گا اسی قدر ذاکر کو نفع اور فائدہ ہو گا اور اتنی ہی اس کے اندر طاقت و قوت پیدا ہو گی۔ دیکھیے لومڑی کس قدر بزدل اور ڈر پوک ہے لیکن شیر اگر اس کی پشت پر ہاتھ پھیر دے اوریہ کہے کہ میں تمہارے ساتھ ہوں، تو اس وقت لومڑی چیتے کا جگر بھی نکال سکتی ہے اور اس کے لیے اس کے اندر ہمت پید اہو سکتی ہے۔ اسی طرح ذاکر کے ساتھ اللہ کی مدد و نصرت ہوتی ہے اور کسی حال میں تنہائی محسوس نہیں کرتا، بلکہ نورِ ذکر کی برکت سے ذاکر اپنے قلب میںحق تعالیٰ کا خاص تعلق محسوس کرتا ہے جس کو مشایخ معیتِ خاصہ کہتے ہیں، معیتِ عامہ تو ہر مسلمان کو حاصل ہے۔حدیث نمبر ۴۹ اِذَا عَطَسَ اَحَدُکُمْ فَلْیَقُلْ اَلْحَمْدُ لِلہِ؎ ترجمہ:جب تم میں سے کسی کو چھینک آئے تو یوں کہے اَلْحَمْدُ لِلہِ ------------------------------