خزائن الحدیث |
|
حدیث نمبر۳۲ اَللّٰھُمَّ اَرِنَا الْحَقَّ حَقًّا وَّ ارْزُقْنَااتِّبَاعَہٗ وَ اَرِنَا الْبَاطِلَ بَاطِلًا وَّارْزُقْنَا اجْتِنَا بَہٗ؎ ترجمہ:اے اللہ! ہمیں حق کا حق ہونا دِکھا دیجیے اور اس کی اتباع کی توفیق عطا فرمائیے اور باطل کاباطل ہونا دِکھا دیجیے اور اس سے بچنے کی توفیق عطا فرمائیے۔ تقلیبِ ابصار سے فانی صورتیں عظیم الشان اور پایندہ حقیقت نظر آنے لگتی ہیں، باطل حق نظر آنے لگتا ہے۔ اس تقلیبِ ابصار سے حدیثِ پاک میں پناہ مانگی گئی ہے اور یہ دعا سکھائی گئی اَللّٰھُمَّ اَرِنَا الْحَقَّ حَقًّا وَّ ارْزُقْنَا اتِّبَاعَہٗ وَ اَرِنَا الْبَاطِلَ بَاطِلًا وَّ ارْزُقْنَا اجْتِنَابَہٗ اے اللہ! ہمیں حق کا حق ہونا دِکھا دیجیے اور اس کی اتباع کی توفیق عطا فرمائیے اور باطل کا باطل ہونا دِکھا دیجیے اور اس سے بچنے کی توفیق عطا فرمائیے۔ بس اللہ والے اس قہر سے محفوظ کیے جاتے ہیں، لہٰذا حسینوں کے فرسٹ فلور پر نظر پڑتے ہی نظریں نیچی کر لیتے ہیں، کیوں کہ حسین جسموں کے گراؤنڈ فلور کی گندگی ان کو مستحضر رہتی ہے کہ اندر سب پیشاب پاخانہ بھرا ہے اور اوپر چاندی کا ورق ہے۔ اللہ کی نافرمانی پیشاب پاخانہ سے بھی بد تر چیز ہے۔ تو جب کسی فانی حسین شکل پر نظر پڑتے ہی دل میں مستی آئے، تو فوراً نظر ہٹا لو اور اس مستی سے پناہ مانگو کہ یہ عذاب کی مستی ہے۔ یہ وہی مستی ہے جس پر یہ آیت نازل ہوئی: لَعَمۡرُکَ اِنَّہُمۡ لَفِیۡ سَکۡرَتِہِمۡ یَعۡمَہُوۡنَ؎ اور وہ (قوم لوط والے) اپنے نشہ میں مست ہو رہے تھے۔واللہ! کہتا ہوں اس سے بڑھ کر کوئی خبیث نہیں جو چند دن کے حُسنِ فانی پر اپنے کریم مولیٰ اور اپنے خالق اور پالنے والے کو ناراض کرتا ہے۔ یہ شخص طبیعت کا خسیس اور کمینہ اور نہایت غیر شریف ہے، اگر اس میں حیا اور شرم ہوتی تو اپنے اللہ کو ناراض نہ کرتا۔ ملّا علی ------------------------------