خزائن الحدیث |
|
تو عَیْنَیْن کی صفتِ ثانیہ یعنی اللہ والی آنکھوں کی دوسری صفت تَسْقِیَانِ الْقَلْبَ بِذُرُوْفِ الدَّمْعِ فرما کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اخلاص کے آنسو مانگے ہیں کہ صرف وہی دل کو سیراب کرتے ہیں۔ اور عَیْنَیْن کی صفتِ ثالثہ یعنی آنکھوں کی تیسری صفت سرور ِعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم مانگ رہے ہیں قَبْلَ اَنْ تَکُوْنَ الدُّمُوْعُ دَمًا وَّ الْاَضْرَاسُ جَمْرًاکہ اے اللہ! رونے کی یہ توفیق اسی حیاتِ دنیا میں عطا فرما دیجیے قبل اس کے کہ دوزخ میں یہ آنسو خون اور داڑھیں انگارے بن جائیں کیوں کہ دوزخ میں دوزخی خون کے آنسو روئے گا لیکن وہ آنسو کسی کام کے نہ ہوں گے کہ وہ تو عذاب کے آنسو ہوں گے۔ پس مبارک وہ آنسو ہیں جو اسی دنیا کی زندگی میں اللہ کے لیے بہہ جائیں، کہ اللہ تعالیٰ کے پیار کا اور عذابِ جہنم سے حفاظت کا ذریعہ ہیں۔ اورقَبْلَ اَنْ تَکُوْنَ الدُّمُوْعُ دَمًا وَّ الْاَضْرَاسُ جَمْرًا ظرف ہے اور ہر ظرف، مظروف کے لیے بمنزلۂ قید ہوتا ہے اور قید بمنزلۂ صفت ہوتی ہے پس یہ نحوی صفت تو نہیں ہے لیکن معنوی صفت ہے۔ اس لیے اس کو عَیْنَیْنِ کی صفتِ ثالثہ قرار دینا صحیح ہے۔ جب احقرمعارفِ مثنوی لکھ رہا تھا یہ خاص شرح اس وقت اللہ تعالیٰ نے اپنے کرم سے عطا فرمائی۔ فَالْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَتشریحِ حدیثِ بالا بعنوانِ دِگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک دو قطروں سے زیادہ کوئی قطرہ پسند نہیں: ایک آنسو کا قطرہ جو اللہ کے خوف سے نکلا ہو اور دوسرا خون کا قطرہ جو اللہ کے راستے میں نکلا ہو، غالباً اسی حدیث کے پیشِ نظر مولانا رومی نے فرمایا ؎ کہ برابر میکند شاہِ مجید اشک را در وزن باخونِ شہید اللہ تعالیٰ گناہ گار بندوں کے آہ و نالوں کے وقت نکلے ہوئے آنسوؤں کو شہیدوں کے خون کے برابر وزن کرتے ہیں۔ میرے بزرگو اور دوستو! بے حساب مغفرت اور عرش کے سائے کا نسخہ بھی حق تعالیٰ کے خوف سے تنہائی میں رونا ہے۔