خزائن الحدیث |
|
میں علم ان میں خود داخل ہے اس وجہ سے کہ علم ہی اللہ تعالیٰ کے ذکر کے قریب لے جاتا ہے، بغیر علم کے خداکو پہچاننا ممکن نہیں لیکن علم کی اتنی ضرورت اور اہمیت کے باوجود عالم اور طالب علم کو علیحدہ اہتمام کی وجہ سے بیان فرمایا کہ امت کو معلوم ہو کہ علمِ دین بہت بڑی دولت ہے (اصل علم، علمِ دین ہے اور اس کے علاوہ تمام علوم فنون ہیں) ایک حدیث میں ہے کہ علم کا صرف اللہ کے لیے سیکھنا اللہ کے خوف کے حکم میں ہے اور علم کی تلاش میں کہیں جانا عبادت ہے اور علم کا یاد کرنا تسبیح ہے۔ تحقیقاتِ علمیہ کے لیے بحث کرنا جہاد ہے اور پڑھنا صدقہ ہے اور اس کا اہل پر خرچ کرنا اللہ کے یہاں قربت ہے اس لیے کہ علم جائز ناجائز کے پہچاننے کی علامت ہے اور جنت کے راستوں کا نشان ہے، وحشت میں جی بہلانے کا سامان ہے اور سفر کا ساتھی ہے (سفر میں کتاب کا مطالعہ ) تنہائی کا ایک ہم کلام دوست ہے۔ خوشی اور رنج میں دلیل ہے، دشمنوں پر ہتھیار ہے۔ دوستوں کے لیے حق تعالیٰ شانہٗ اس کی وجہ سے ایک جماعت علماء کو بلند مرتبہ کرتا ہے کہ وہ خیر کی طرف بُلانے والے ہوتے ہیں اور ایسے امام ہوتے ہیں کہ ان کے نشانِ قدم پر چلا جائے اور ان کے افعال کی اتباع کی جائے۔ ان کی رائے کی طرف رجوع کیا جائے، فرشتے اُن سے دوستی کرنے کی رغبت کرتے ہیں، فرشتے اپنے پروں کو (برکت حاصل کرنے کے لیے یا محبت کے طور پر) ان پر مَلتے ہیں اور ہر ترو خشک چیز دنیا کی ان کے لیے مغفرت کی دعا کرتی ہے حتیٰ کہ سمندر کی مچھلیاں اور جنگل کے درندے اور چوپائے اور زہریلے جانور (سانپ وغیرہ تک ) بھی دعائے مغفرت کرتے ہیں اور یہ سب اس لیے کہ علم دلوں کی روشنی ہے، آنکھوں کا نور ہے، علم کی وجہ سے بندہ امت کے بہترین افراد تک پہنچ جاتا ہے، دنیا اور آخرت کے بلند مرتبوں کو حاصل کرلیتا ہے،اس کا مطالعہ روزوں کے برابر ہے، اس کا یاد کرنا تہجد کے برابر ہے، اسی سے رشتے جوڑے جاتے ہیں اور اسی سے حلال و حرام کی پہچان ہوتی ہے۔وہ عمل کا امام ہے اور عمل اس کا تابع ہے، سعید لوگوں کو اس کا الہام کیا جاتا ہے اور بد بخت اس سے محروم رہتے ہیں۔حدیث نمبر۴۸ اَللّٰھُمَّ افْتَحْ اَقْفَالَ قُلُوْبِنَا بِذِکْرِکَ؎ ------------------------------