خزائن الحدیث |
|
اس کو لات مار کر قبر میں دھکیل دے گی، اس دن پتا چلے گا کہ جس پر ہم مر رہے تھے وہ کام نہ آئی ۔ اگر اللہ پر مرتے تووہ اللہ زمین کے نیچے بھی ساتھ دیتا ہے،قیامت کے دن بھی ساتھ دے گااور جنت میں بھی ساتھ دے گا۔ ایسے مالک کو خوش نہ کرنا اس سے بڑھ کر نادانی اور بے وفائی اور احسان فراموشی کیا ہو سکتی ہے؟حدیثِ پاک کے تیسرے جز کی شرح سایۂ عرش حاصل کرنے کا طریقہ جو اپنی جوانی کی اُٹھان کو اپنے رب کی عبادت میں استعمال کرلے، اس کو قیامت کے دن عرش کا سایہ ملے گا۔ یہ بخاری شریف کا متن ہے، مگر شارحِ بخاری علامہ ابن حجر عسقلانی رحمۃاﷲ علیہ چودہ جلدوں کی شرح ’’فتح الباری‘‘میں فرماتے ہیں کہ ایک روایت اور آئی ہے کہ شَآبٌّ اَفْنٰی نَشَاطَہٗ وَ شَبَابَہٗ فِیْ عِبَادَۃِ رَبِّہٖ؎ جو جوان اپنی جوانی کو اپنے رب پر جلا کر خاک کردے، اپنی خواہشات کا غلام نہ بنے اور بری بری خواہشوں سے یہ اعلان کردے ؎ جلاکے راکھ نہ کردوں تو داغ نام نہیں اے نفس! مجال نہیں ہے کہ تو مجھ پر غالب آجائے، میں اپنے مولیٰ کو ناراض نہیں کروں گا چاہے میری جوانی رہے یا نہ رہے۔ایک جوانی کیا چیز ہے،اگر ہم ایک کروڑ جوانی بھی اﷲ پر فدا کردیں تو اس کاحق ادا نہیں ہوسکتا۔ تو ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ یہ روایت نقل کرکے فرماتے ہیں کہ جو جوان اپنی جوانی کو اﷲ پر فدا کر دے اور جوانی کی حرام خوشیوں کو فناکردے تو اس کوبھی عرش کا سایہ ملے گا اور علامہ بدر الدین عینی نے شرح بخاری عمدۃ القاری میں لکھا ہےکہ شَابٌّ جَمِیْلٌ دَعَاہُ الْمَلِکُ لِیُزَوِّجَ بِنْتَہٗ بِہٖ فَخَافَ اَنْ یَّرْتَکِبَ بِہِ الْفَاحِشَۃَ فَامْتَنَعَ ایک خوبصورت جوان کو بادشاہ نے بلایاتاکہ اس سے اپنی بیٹی کا نکاح کردے،مگر وہ بادشاہ عادت کا اچھا نہ تھا، اس نوجوان کو ڈر لگا کہ یہ بیٹی تو دے گا مگر میرے حسن کو غلط استعمال کرے گا، میرے ساتھ بدفعلی کرے گا، لہٰذا اس نے انکار کردیاکہ ہم آپ کی بیٹی سے شادی نہیں کرنا چاہتے، تو علامہ بدرالدین عینی رحمۃ اﷲ علیہ لکھتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ قیامت کے دن اس کو بھی عرش کا سایہ دے گا، کیوں کہ اس نے اپنی جوانی کو اﷲ پر فدا کردیا۔ ------------------------------