خزائن الحدیث |
|
قلب کا مفہوم قَدْ سُمِّیَ الْقَلْبُ قَلْبًا مِّنْ تَقَلُّبِہٖ فَاحْذَرْ عَلَی الْقَلْبِ مِنْ قَلْبٍ وَّ تَحْوِیْلٖ جیسا کہ ایک شاعر کہتا ہےکہ قلب کا نام قلب اس لیے ہے کہ وہ ہر وقت بدلتا رہتا ہے، پس سخت اہتمام رکھو کہ قلب حق سے باطل کی طرف نہ پھر جائے۔ کَانَ رَسُوْلُ اللہِ یُکْثِرُ اَنْ یَّقُوْلَ یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلٰی دِیْنِکَحضورِ اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اس دعا کو کثرت سے پڑھتے تھے۔ اے دلوں کے بدلنے والے! میرے دل کو دین پر قائم رکھیے۔ علامہ قسطلانی رحمۃ اﷲ علیہ نے قلب کو امیر البدن اور قالب کو اس کی رعیت فرمایا اور رعیت کی صلاح و فساد موقوف ہے امیر کی صلاح و فساد پر۔ فرماتے ہیں: لِاَنَّہٗ اَمِیْرُ الْبَدَنِ وَبِصَلَاحِ الْاَمِیْرِ تَصْلُحُ الرَّعِیَّۃُ وَبِفَسَادِہٖ تَفْسُدُ وَاَشْرَفُ مَا فِی الْاِنْسَانِ قَلْبُہٗ فَاِنَّہُ الْعَالِمُ بِاللہِ تَعَالٰی وَالْجَوَارِحُ خَدَمٌ لَّہٗاس حدیث سے اصلاحِ قلب پر استدلال سُمِّیَ الْقَلْبُ قَلْبًا لِّتَقَلُّبِہٖ فِی الْاُمُوْرِ… وَخُصَّ الْقَلْبُ بِذَالِکَ لِاَنَّہٗ اَمِیْرُ الْبَدَ نِ وَبِصَلَاحِ الْاَمِیْرِ تَصْلُحُ الرَّعِیَّۃُ وَ بِفَسَادِہٖ تَفْسُدُ وَ فِیْہِ تَنْۢبِیْہٌ عَلٰی تَعْظِیْمِ قَدْرِ الْقَلْبِ وَالْحَثِّ عَلٰی صَلَاحِہٖ؎ قلب کا نام قلب اس لیے رکھا گیا کہ وہ متقلب فی الامور ہوتا ہے اور اس نام کے ساتھ قلب کو خاص کیا گیا، کیوں کہ قلب امیر البدن ہے اورامیر کی اصلاح سے رعایا کی اصلاح ہوتی ہے اور اس کے فساد سے رعایا کا فساد ہوتا ہے۔ اور ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں اصلاحِ قلب کا عظیم الشان ثبوت ہے جیسا کہ صوفیائے کرام کا معمول ہے۔ اگر قالب سے گناہ سر زد ہوتے ہیں (مثلاًداڑھی منڈانا، ٹخنے سے نیچے پاجامہ لٹکانا، بد نگاہی کرنا وغیرہ) تو یہ سب قلب کے فساد کی علامت ہے۔ صلاحِ قالب کے لیے صلاحِ قلب ------------------------------