خزائن الحدیث |
|
ترکِ معاصی دلیلِ رحمت اور معصیت ذریعۂ شقاوت چند دن کی فانی لذتوں کے لیے اپنے اللہ کو غضب ناک نہ کرو، دوستو! اللہ تعالیٰ ہم لوگوں پر رحم کرے، بہت بڑی رحمت ہے جو گناہ سے بچ جائے، اس لیے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے استقامت کے لیے دو دعائیں سکھائی ہیں، آپ لوگ یاد کر لیجیےاَللّٰھُمَّ ارْحَمْنِیْ بِتَرْکِ الْمَعَاصِیْ اے اللہ! ہم پر وہ رحمت نازل کر دے جس سے گناہ چھوڑنے کی توفیق عطا ہو جائے، اے اللہ! وہ رحمت دے دے ہم کو، جس سے ہم گناہ چھوڑ دیں، آپ کو ناراض کرنے کا سلسلہ ختم ہو جائے وَلَا تُشْقِنِیْ بِمَعْصِیَتِکَاور اپنی نا فرمانی سے مجھ کو بد نصیب اور بد بخت نہ بنائیے۔ یہ دعا بتا رہی ہے کہ گناہ گار انسان سخت خطرے میں ہے اور کسی وقت وہ بدنصیب اور سوئے خاتمہ میں مبتلا اور خدا کے قہر میں گرفتار ہو سکتا ہے، ورنہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم یہ الفاظ کیوں استعمال فرماتے؟ اہلِ علم سے پوچھتا ہوں، آپ لوگ پڑھے لکھے ہیں،یہ مضمون کیا بتا رہا ہے؟ کہ اے خدا! مجھ کو اپنی نا فرمانی سے بد بخت نہ بنائیے۔ معلوم ہوا کہ گناہ میں خاصیت موجود ہے بدبختی اور بد نصیبی کی، اگر توبہ نہ کی تو کتنے لوگ بصورتِ با یزید ننگِ یزید ہو کر مرگئے، وہیں دھر لیے گئے، فرشتوں نے عذاب میں انہیں دبا لیا۔ یہ دو دعائیں یاد کر لیجیے: ۱) اَللّٰھُمَّ ارْحَمْنِیْ بِتَرْکِ الْمَعَاصِیْاے خدا! ہم پر وہ رحمت نازل کر دے جس سے معصیت کواور گناہ کو چھوڑنے کی ہمت پیدا ہو جاتی ہے، رُو باہیت شیریت سے بدل جائے، ہمت میں ہم لومڑی ہیں اگرچہ صورت میں شیر ہیں۔ دنیاوی معاملات میں تو ایسا غصہ آئے گا کہ ان سے بڑھ کر کوئی طاقت والا نہیں لیکن نفس کی اتباع اور غلامی میں اس شخص سے بڑھ کر کوئی بزدل نہیں ہے، ایسے لوگوں سے اگر اللہ تعالیٰ ستاریت کا پردہ ہٹا دے تو پتا چل جائے گا کہ اس سے بڑھ کر کوئی کمینہ کوئی بزدل نہیں ہے۔اَللّٰھُمَّ ارْحَمْنِیْ بِتَرْکِ الْمَعَاصِیْ اے اللہ! مجھ پر وہ رحمت نازل کر دے جس سے آپ گناہ چھوڑنے کی ہمت عطا کرتے ہیں، لومڑیوں کو شیر بنا دیتے ہیں روباہِ طریق کو شیرِِ طریق بنادیتے ہیں اور دوسری دعا ہے: ۲) وَلَا تُشْقِنِیْ بِمَعْصِیَتِکَ؎ اور اپنی نا فرمانی اور گناہوں سے ہم کو بدنصیب نہ بنا۔ معلوم ہوا کہ گناہ میں ------------------------------