خزائن الحدیث |
|
اس سے معافی مانگنا ضروری نہیں، بلکہ صبح و شام کے جو معمولات میں نے بتائے ہیں، وہ پڑھ کر روزانہ اللہ تعالیٰ سے کہہ دو کہ میں نے زندگی میں جس کی غیبت کی ہو، ستایا ہو یا مارا ہو، ان سب کا ثواب اے اللہ! اُن کو دے دے اور ان کا یہ ثواب دِکھاکر قیامت کے دن راضی نامہ کرا دینا۔ ماں باپ کو بھی اس میں شامل کر لو۔ بزرگوں کا اس میں اختلاف ہے کہ ثواب تقسیم ہو کر ملے گا یا ہر ایک کو پورا ملے گا؟ مثلاً تین دفعہ قل ھو اللہ کا ثواب اگر سو آدمیوں کو بخشا تو کیا سو حصہ لگے گا یا بانٹا جائے گااورتقسیم ہو گا؟ مگر حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی تحقیق یہی ہے جس کو حکیم الامت نے نقل کیا ہے کہ ثواب تقسیم نہیں ہوگا سب کو برابر ملے گا۔ سورۃ یٰسین شریف پڑھ کے بخشو تو دس قرآن پاک کا ثواب اور تین قل ھو اللہ شریف پڑھ کر بخشو تو ایک قرآن پاک کا ثواب ہر ایک کو پورا پورا ملے گا، چاہے بے شما ر آدمیوں کو بخشو اور اللہ تعالیٰ کی رحمت اور فضل سے یہ قریب ہے۔کفارۂ غیبت کی دلیلِ منصوص تو غیبت کے متعلق بہت بڑے بڑے علماء بھی اس مسئلہ سے واقف نہیں ہیں، وہ یہی کہیں گے معافی مانگنا پڑے گی کہ یہ حق العباد ہے، بندوں کا حق ہے، لیکن حکیم الامت کا یہ مضمون الطرائف و الظرائف میں، میں نے خود پڑھا ہے کہ جس کی غیبت کی ہے جب تک اس کو اطلاع نہ ہو اس سے معافی مانگنا واجب نہیں، بلکہ بعض وجہ سے جائز بھی نہیں ہے کیوں کہ اس سے اُس کا دل برا ہو گا کہ یار! تم اچھے خاصے دوست بن کرمیری غیبت کر رہے تھے، تو یہ اذیت پہنچانا ہوگا، کیوں کہ اس کو تو معلوم ہی نہیں تھا کہ میری غیبت کی گئی ہے، لہٰذا جب تک اطلاع نہ ہو اُس سے معافی مانگنا واجب نہیں، بلکہ مندرجہ بالا طریقہ سے اس کی تلافی کرنا کافی ہے اور اس کی دلیلیہ حدیث ہے: اِنَّ مِنْ کَفَّارَۃِ الْغِیْبَۃِ اَنْ تَسْتَغْفِرَ لِمَنِ اغْتَبْتَہٗ تَقُوْلُ :اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لَنَا وَلَہٗ؎ غیبت کا کفارہ یہ ہے کہ جس کی غیبت کی ہے اس کے لیے استغفار کرے۔ محدثین نے لکھا ہے کہ یہ اسی صورت میں ہے جب اس کو اطلاع نہ ہوئی ہو یا اس کا انتقال ہو گیا ہو، ہاں اگر اطلاع ہو گئی تو اب اس سے معافی مانگنا واجب ہے، جب تک معافی نہیں مانگو گے یہ گناہ معاف نہیں ہو گا۔ اس کو میں جب بیان کرتا ہوں تو بڑے بڑے علماء میرا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ ------------------------------