خزائن الحدیث |
|
تکبر کس کو کہتے ہیں؟حدیثِ پاک کے مطابق تکبر بَطَرُ الْحَقِّ وَغَمْطُ النَّاسِ؎ کا نام ہے یعنی لوگوں کو حقیر سمجھنا اور حق بات کو قبول کرنے سے اعراض اور انکار کرنا۔ تکبر کرنے والا تواضع سے محروم رہتا ہے اور حسد و غصہ سے نجات نہیں پاتا، ریاکاری کا ترک اور نرمی کا برتاؤ اس کو دشوار ہوتا ہے،اپنی عظمت اور بڑائی کے نشہ میں مست رہتا ہے۔ حدیثِ پاک میں ہے کہ جب بندہ رضائے حق کے لیے تواضع اختیار کرتا ہے (جیسا کہ مَنْ تَوَاضَعَ لِلہِ کے اندر حرف لام سے ظاہر ہے) تو یہ شخص اپنے دل میں خود کو کمتر اور حقیر سمجھتا ہے اور مخلوق کی نظر میں اس کو اللہ تعالیٰ بلندی اور عزت عطا فرماتے ہیں، اسی طرح جو اپنے کو بڑا سمجھتا ہے تووہ اپنی نظر میں تو بڑا ہوتا ہے، لیکن لوگوں کی نظر میں ذلیل کر دیا جاتا ہے حتیٰ کہ سور اور کتے سے بھی زیادہ ذلیل ہوتا ہے۔ علاج:اپنے گناہوں کو سوچا کرے اور اللہ تعالیٰ کی پکڑ اور محاسبہ کا دھیان رکھے، جب اپنی فکر میں پڑے گا تو دوسروں کی تحقیرو تنقید اور تبصرہ سے بچے گا، جیسے کوڑھی کسی زُکام کے مریض کو حقیر نہیں سمجھتا اسی طرح اپنی روحانی اور قلبی بیماری کو شدید سمجھے اور اپنے خاتمہ کے خوف سے لرزاں اور ترساں رہے۔ میرے مرشد اس بیماری کی اصلاح کے لیے ایک حکایت بیان فرمایا کرتے تھے کہ ایک لڑکی کو شادی کے موقع پر خوب اچھے لباس اور زیور سے سجایا گیا۔ محلہ کی سہیلیوں نے تعریف شروع کی کہ بہن! تم تو بڑی اچھی معلوم ہوتی ہو۔ اس نے رو کر کہا کہ ابھی تم لوگ بے کار تعریف کرتی ہو۔ جب میرا شوہر مجھے دیکھ کر پسند کر لے اور اپنی خوشی کا اظہار کر دے تب وہ خوشی اصلی خوشی ہو گی، معلوم نہیں اس کی نگاہ میں میری صورت کیسی معلوم ہو گی، تمہاری نگاہوں کے فیصلے ہمارے لیے بے کار ہیں۔ پھر حضرت مرشد فرماتے تھے کہ اسی طرح بندہ کو مخلوق کی تعریف سے یا اپنی رائے سے خود کو اچھااور بڑا نہ سمجھنا چاہیے، کیوں کہ میدانِ محشر میں حق تعالیٰ کی نظر سے ہمارے کیا فیصلے ہوں گے اس کی خبر ہم کو ابھی کچھ نہیں پھر کس منہ سے اپنے کو موت سے قبل اور حُسن خاتمہ سے قبل اچھا سمجھنے کا حق ہو گا؟ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎ ایماں چوں سلامت بہ لبِ گور بریم اَحْسَنْتُ بریں چستی و چالاکیٔ ما جب اسلام کو ہم قبر میں سلامتی سے لے جائیں گے پھر اپنی چستی اور ہوشیاری پر خوشی منائیں گے، یہی وجہ ہے کہ تمام اولیائے کرام مرنے سے قبل کبھی ناز کی بات نہیں کرتے اور حُسنِ خاتمہ کی دعا کرتے رہتے ہیں اور دوسروں سے بھی درخواست دعا کرتے رہتے ہیں۔ یہ بے وقوف لوگوں کا کام ہے جو اپنے بارے میں مالک کے فیصلہ کا انتظار کیے بغیر اپنے ہی فیصلہ سے یا مخلوق کی تعریف سے اپنے لیے بڑائی اور اچھائی کا فیصلہ کر بیٹھے ہیں۔عُجب اور کبِر کا فرق اپنے کو اچھا سمجھنا اور کسی کو حقیر نہ سمجھنا ’’عُجب‘‘ کہلاتا ہے اور اپنے کو اچھا سمجھنے کے ساتھ دوسروں کو کمتر بھی سمجھنا تکبر کہلاتا ہے اور دونوں حرام ہیں۔ جب بندہ اپنی نظر میں حقیر ہوتا ہے تو حق تعالیٰ کی نظر ------------------------------