خزائن الحدیث |
|
برداری کرنے لگیں۔ نا فرمانی سے فرماں برداری کی طرف رجوع یہ عوام کی توبہ ہے اور خواص اولیاء کی توبہ کیا ہے؟ ۲) اَلرُّجُوْعُ مِنَ الْغَفْلَۃِ اِلَی الذِّکْرِ اللہ تعالیٰ سے دل ذرا غافل ہوگیا، گناہ نہیں کیا، ذراسی غفلت پیدا ہو گئی تھی تو دل کو پھر اللہ کی یاد میں لگا دیا ؎ مدت کے بعد پھر تری یادوں کا سلسلہ اِک قلبِ ناتواں کو توانائی دے گیا یہ خواص کی توبہ ہے۔ اور اخص الخواص کی توبہ ہے: ۳) اَلرُّجُوْعُ مِنَ الْغَیْبَۃِ اِلَی الْحُضُوْرِ؎ دل کو ہر وقت اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضر رکھے اور اگر کبھی غیبت ہو جائے کہ دل ذرا سا ان کے محاذات سے ہٹ جائے تو فوراًدل کو اللہ تعالیٰ کے سامنے کردے، وہ ہمہ وقت باخدا رہتے ہیں،یہ لوگ خَیْرُالْخَطَّائِیْنَہیں۔ اب ایک علمی اِشکال یہ پیدا ہوتا ہے کہ توبہ سے جب بندہ خیر ہو گیا، اللہ کا پیارا ہو گیا توخَیْرُ الْخَطَّائِیْنَ کیوں فرمایا، صرف خیر فرما دیا ہوتا،خَطَّائِیْنَکی نسبت ہی باقی نہ ہوتی؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ پھر توبہ کی کرامت اور خاصیت ظاہر نہ ہوتی کہ توبہ ایساکیمیکل ہے جو شر کو خیر بنا دیتا ہے اورخَطَّائِیْنَ کی نسبت باقی رہنے سے بندوں کی عزت میں کوئی فرق نہیں آیا کیوں کہ ترکیبِ اضافی میں مضاف ہی مقصود ہوتا ہے، جیسےجَاءَ غُلَا مُ زَیْدٍیہاں زید نہیں غلام مقصود ہے بس خَیْرُ الْخَطَّائِیْنَ میں خیر ہی مقصود ہے نہ کہ خَطَّائِیْنَ۔قبولِ توبہ کی چار شرائط اس لیے دوستو! یہ کہتا ہوں کہ توبہ قبول ہونے کی چار شرطیں ہیں، جس کو شیخ محی الدین ابو زکریا نووی رحمۃ اللہ علیہ نے شرح مسلم میں لکھا ہے۔ شرطِ اوّل:گناہ سے الگ ہو جائے اور اس گناہ سے ہٹ جائے،یہ نہیں کہ عورتوں کو دیکھ بھی رہے ہیں اور یااللہ توبہ، یا اللہ توبہ، کیا زمانہ آ گیا ہے، کے نعرے بھی لگا رہے ہیں۔بڑے با یزید بسطامی معلوم ہوتے ہیں، بابا فرید الدین عطار سے کم نہیں معلوم ہوتے، ایسی توبہ قبول نہیں ہے، گناہ سے فوراً الگ ہو جاؤ، پہلے نظر ہٹاؤ۔ ------------------------------