خزائن الحدیث |
|
حدیث نمبر ۸ اَللّٰھُمَّ ارْحَمْنِیْ بِتَرْکِ الْمَعَاصِیْ؎ ترجمہ:اے اﷲ! مجھ پر ایسی رحمت نازل فرما دیجیے کہ جس سے تمام گناہ چھوٹ جائیں۔رحمت ِحق اور محرومی از رحمتِ حق کے دلائلِ منصوصہ گناہ بُری چیز ہے اور بُری چیز کو جلد چھوڑنا چاہیے۔ جیسے اگر کپڑے میں کہیں پاخانہ لگ جائے تو جلدی سے صاف کرتے ہو کہ نہیں؟ لیکن آج کل لوگوں سے ایک بد نظری ہوتی ہے تو جلد توبہ نہیں کرتے۔ شیطان کہتا ہے ابھی تو راستے میں بہت سی شکلیں نظر آئیں گی سب کو خوب دیکھ بھال لو، شام کو گھر جانااور جب سورج غروب ہو جائے تو اندھیرے میں رو دھو کر خوب تلافی کر دینا۔ اُجالوں میں اندھیرے کام کرو اور اندھیرے میں اُجالے کام کرو۔ میں کہتا ہوں کہ اگر یہ شخص خوش نصیب ہے اور اس کے قلب پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے اور یہ محرومِ رحمتِ الٰہیہ نہیں ہے، توان شاءاللہ ایک سیکنڈ بھی برداشت نہیں کرے گا، صدورِ خطا کے بعد فوراً حق تعالیٰ سے استغفار و توبہ کر کے موردِ عطا ہو جائے گا۔ جو لوگ تسلسل کے ساتھ گناہوں میں مبتلا ہیں اور توبہ و استغفار کرکے اپنے کو صاف نہیں کرتے یہ حق تعالیٰ کی رحمتِ خاصّہ سے محروم ہیں۔ دلیل کیا ہے؟اَللّٰھُمَّ ارْحَمْنِیْ بِتَرْکِ الْمَعَاصِیْ؎ اے اللہ! مجھے وہ رحمت عطا فرمائیے جس سے میں گناہ چھوڑ دوں۔ معلوم ہوا کہ گناہ چھوڑنا اللہ کی رحمت کی دلیل ہے اور نفس کے شرسے وہی بچ سکتا ہے جو اللہ کی رحمت کے سائے میں ہوگا۔ اس کی دلیلاِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّیْہے۔ یہ استثنا اللہ تعالیٰ کا ہے، خالقِ نفسِ امّارہ کا استثنا ہے۔ نفسِ امّارہ کے معنیٰ ہیںکَثِیْرُ الْأَمْرِ بِالسُّوْءِ جس کا ہندی ترجمہ میں نے کیا ہے کہ مہادُشٹ یعنی زبردست ------------------------------