خزائن الحدیث |
|
مٹکے کا پانی آ سکتا ہے اور مٹکے میں حوض اور حوض میں دریا آئے گا؟ دریا میں سمندر بھر سکتے ہو؟ جب چھوٹے محدود میں بڑا محدود نہیں آسکتا،تو محدود میں غیر محدود کیسے آئے گا؟ اللہ تعالیٰ کی ذات یاد کرنے کے لیے ہے۔ قرآن کریم میںیَذْکُرُوْنَ اللہَ فرمایا۔ اللہ کو یاد کرو، بس اس یاد سے وہ دل میں آجائیں گے، تمہیں خود پتا چل جائے گا کہ اللہ تعالیٰ کیا ہیں۔ اور غور و فکر مخلوق میں کیا کرو۔ حضرت حکیم الامت تھانوی صاحب رحمۃاللہ علیہ وَیَتَفَکَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے معلوم ہوا کہ فکر برائے مخلوق ہے اور ذکر برائے خالق ہے۔اگر اس کے خلاف چلو گے تو گمراہ ہو جاؤ گے، تو ذکر اللہ کاایک فائدہ بیان ہوگیا، لہٰذا جب ذکر کی مجلس میں آئیں تو یہ نیت بھی کر لیں کہ چلو فرشتوں کی ملاقات بھی کر لیں۔دوسری فضیلت وَغَشِیَتْھُمُ الرَّحْمَۃُاللہ تعالیٰ اپنی رحمت میں اپنے یاد کرنے والوں کو ڈھانپ لیتے ہیں۔ کس طرح ڈھانپتے ہیں؟ دیکھیے اس جملے میں بڑا پیار ہے، اس کو محبت کے انداز میں سمجھیے۔ ماں جب اپنے بچے کو گود میں لیتی ہے تو کس طرح لیتی ہے ؟لے کر چپکا لیتی ہے، اس کے بعد دوپٹہ سے چھپا لیتی ہے پھر ٹھڈی بھی اس کے سر پر رکھ دیتی ہے۔ یہی مفہوم ہے غَشِیَتْھُمُ الرَّحْمَۃُ کا کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے ڈھانپ لیتا ہے ؎ نورِ او در یُسر و یُمن و تحت و فوق برسرم بر گردنم مانندِ طوق اس کا نور ہمارے دائیں بائیںاور اوپر نیچے گھیر لیتا ہے۔ سر سے گردن ہر جگہ مانندِ طوق اپنی رحمت کے دامن میں چھپا لیتے ہیں۔ تو ذکر کی مجلس میں اس نیت سے آؤ کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہمیں ڈھانپ لے اور پیار کر لے۔تیسری فضیلت وَنَزَلَتْ عَلَیْھِمُ السَّکِیْنَۃُ ہم ان کے دل پر سکینہ نازل کرتے ہیں۔ علامہ سید محمود آلوسی رحمۃ اللہ علیہ روح المعانی میں سکینہ کی تفسیر فرماتے ہیں فَاِنَّ السَّکِیْنَۃَ ھِیَ نُوْرٌ یَّسْتَقِرُّ فِی الْقَلْبِ؎ سکینہ ایک نور ہے جو دل میں ٹھہر جاتا ہے۔ یہ دنیا کے نہیں کہ بس مسجد میں تو اللہ والے ہیں اور جہاں ------------------------------