خزائن الحدیث |
|
صحابہ کرام کی دین کی حرص آج ہم لوگ کہتے ہیں کہ مولویوں سے زیادہ مسائل نہ پوچھو، اگر تم نے نماز کا پوچھا تو روزہ گلے لگا دیں گے، لیکن صحابہ کرام کی دین کی پیاس بجھتی ہی نہ تھی۔ حضرت ابو ذر غفاری حضورِ اکرم صلی اﷲ علیہوسلم سے عرض کرتے ہیں:قُلْتُ زِدْنِیْہمیں اور زیادہ نصیحت کیجیے۔دونصیحتوں کے بعد عرض کیا:اور فرمائیے۔ واہ یہ ہے طلبِ علم! ایک کباب کے بعد دوسرے کباب کی طرف بھی ہاتھ لپکتا ہے، جب دنیوی کبابوں کی اتنی طلب ہےتو علم جو آخرت کی چیز ہے اس کی طلب تو اور زیادہ ہونی چاہیےتاکہ آخرت بن جائے ،تو آپ علیہ السلام نے مزید فرمایا: عَلَیْکَ بِطُوْلِ الصَّمْتِ فَاِنَّہٗ مَطْرَدَۃٌ لِّلشَّیْطٰنِ وَعَوْنٌ لَّکَ عَلٰی اَمْرِ دِیْنِکَ اے ابو ذر! تم اکثر خاموش رہا کرو، کیوں کہ اس کی وجہ سے شیطان تم سے ڈرے گا اور تمہارے دین کے تمام معاملوں میں اس سے مدد ملے گی۔ حضرت ابو ذر غفاری نے پھر عرض کیا: قُلْتُ زِدْنِیْ اے اﷲ کے نبی! مجھے اور نصیحت کیجیے۔ کیا حرص ہے اور کیا حریص طالب علم ہے، لیکن یہ حرص مبارک ہے، ہر لالچ بری نہیں ہوتی۔کثرت ِضحک کی شرح چوتھی نصیحت آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے یہ فرمائی: اِیَّاکَ وَکَثْرَۃَ الضِّحْکِ فَاِنَّہٗ یُمِیْتُ الْقَلْبَ وَیَذْھَبُ بِنُوْرِ الْوَجْہِ کثرتِ ضحک سے بچو،کیوں کہ زیادہ ہنسنا دل کومردہ کردیتا ہے، اس سے مراد وہ ہنسی ہے جو غفلتِ قلب کے ساتھ ہو، اگر دل اﷲ سے غافل نہیں تو ہنسنے میں مضایقہ نہیں، لیکن اس میں بھی اتنا غلو نہ کرو کہ ہر وقت ہنستے ہی رہو اور نہ اتنی کمی کرو کہ ہنسنا ہی بھول جاؤ، لہٰذا اللہ والے دوستوں کے ساتھ تھوڑا ہنسنا بھی چاہیے، کیوں کہ یہ مقوی قلب اور مقوی اعصاب ہے، بالکل خاموشی سے اعصاب ٹوٹ جاتے ہیں، لہٰذا خاموشی میں بھی غلو نہ کرو، نہ ہر وقت ہنستے رہو نہ بالکل خاموش رہو بلکہ ہر چیز اعتدال میں ہو۔ ایک مرتبہ سرورِ کائنات صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم تشریف فرما تھے، حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ حاضرِ خدمت ہوئے،اتنے میںآپ صلی اﷲتعالیٰ علیہ وسلم کو کسی بات پر ہنسی آگئی،تو حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کو دعا دی: