خزائن الحدیث |
|
سب سے بڑھ کر یہ کہ ہمارے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم جو دونوں عالم میں اﷲ تعالیٰ کے سب سے زیادہ پیارے ہیں اور وجۂ تخلیقِ کائنات ہیں ان کا نسب آپ کی بیٹی سے چلا۔ اگر بیٹیاں مبارک نہ ہو تیں تواﷲ تعالیٰ اپنے سب سے پیار ے نبی کا نسب بیٹی سے نہ چلاتا۔ معلوم ہوا کہ بیٹیاں بہت مبارک ہیں، ا س لیے ان کو حقیر نہ سمجھو۔ بیٹے تو بیٹیاں لاتے ہیں اور بیٹیاں بیٹے یعنی داماد لاتی ہیں۔ بعض وقت داما د ایسا لائق مل گیا جو بیٹوں سے بھی زیادہ خدمت گزار نکلا، البتہ اﷲ تعالیٰ سے بیٹے کے لیے دعا مانگنے میں کوئی حرج نہیں۔ اس نیت سے بیٹا مانگو کہ اسے عالم اور حافظ بناؤں گا تاکہ وہ اﷲ والا بن جائے، دین کا کام کرے اور ہمارے دینی اداروں کو چلائے اور ہمارے لیے صدقۂ جاریہ ہو۔حدیث نمبر۸۳ اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنِیْ صَبُوْرًا وَّاجْعَلْنِیْ شَکُوْرًا وَّ اجْعَلْنِیْ فِیْ عَیْنِیْ صَغِیْرًا وَّ فِیْ اَعْیُنِ النَّاسِ کَبِیْرًا؎ ترجمہ:اے اﷲ! مجھے بہت زیادہ صبر کرنے والا اور بہت زیادہ شکر کرنے والا بنا دیجیےاور مجھے میری نگاہ میں کم تر دکھائیے اور لوگوں کی نگاہوں میں بڑا بنا دیجیے۔شرح حدیث اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنِیْ صَبُوْرًا…الٰخ اے اللہ! مجھے صبرعطا فرما کہ ہم نیک اعمال پر قائم رہیں اور مصیبت میں آپ پر اعتراض نہ کریں کہ کیوں ہم کو یہ مصیبت ملی۔ مصیبت سے اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کا درجہ بلند کرتا ہے، گناہوں سے پاک صاف کرتا ہے۔ ماں میل کچیل چھڑاتی ہے تو بچہ چلّاتا ہے، مگر بعد میں چمک جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ بعض بندوں کو مصیبت دے کر ان کی خطائیں معاف کرتے ہیں اور صبر کی برکت سے نسبت مع اللہ کا اعلیٰ مقام دے دیتے ہیں اور اَلصَّبْرُ عَنِ الْمَعْصِیَۃِبھی دیجیے کہ نا فرمانی کے تقاضوں کے وقت ہم صابر رہیں اور نافرمانی نہ کریں اور نا فرمانی سے بچنے کا غم اُٹھا لیں اس کا نام اَلصَّبْرُ عَنِ الْمَعْصِیَۃِہے۔ اس دعا میں سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے صبر کی اقسامِ ثلاثہ مانگی ہیں: ------------------------------