خزائن الحدیث |
|
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت فرمائی کہ اگر کسی کو چھینک آئے تو وہ کہے اَلْحَمْدُ لِلہِ (تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں) لوگوں نے اس موقع پر اَلْحَمْدُ لِلہِ کی تعلیم دیے جانے کی مختلف حکمتیں بیان کی ہیں لیکن ایک حکمت ان سب میں نرالی ہے۔ شاید آپ نے یہ حکمت نہ کسی کتاب میں پڑھی ہو نہ کسی سے سنی ہو، وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہترین شکل و صورت میں بنایا ہے مگر جب اس کو چھینک آتی ہے تو اس وقت اس کی شکل بگڑ جاتی ہے چوں کہ چھینک کے بعد شکل اپنی حالت پر عود کر آتی ہے اور اس کا بگاڑ ختم ہو جاتا ہے اس لیے حکم دیا گیا کہ الحمد للہ کہو، تاکہ اللہ کی عظیم نعمت جو تم سے خواہ ایک آن کے لیے ہی سہی، مگر چھین لی گئی تھی، اور اب واپس دے دی گئی ہے۔ اس پر تمہاری طرف سے شکر ادا ہو سکے۔ سوچئے! چھینک کے بعد اَلْحَمْدُ لِلہِ کہنا بظاہرکتنی معمولی بات ہے، لیکن اس میں کتنی بڑی حقیقت پوشیدہ ہے۔ شریعت کی ہر تعلیم میں اس طرح کی حکمتیں چھپی ہوئی ہیں۔ خواہ ہمیں ان کا ادراک ہو سکے یا نہیں، تا ہم ہم ہر تعلیم پر عمل کرنے کے پابند ہیں۔ یہی پابندی ایک بندہ کو خدا کا بندہ بنا دیتی ہے ۔ یہ حکمت اَلْحَمْدُ لِلہِ کہنے کی حضرت مولانا گنگوہی رحمۃ اﷲ علیہ نے ارشاد فرمائی جس کو احقر نے اپنے شیخ مرشد حضرت پھولپوریرحمۃ اﷲ علیہ سے سنا ہے۔حدیث نمبر۵۰ مَنْ تَوَاضَعَ لِلہِ رَفَعَہُ اللہُ فَھُوَ فِیْ نَفْسِہٖ صَغِیْرٌ وَّ فِیْ اَعْیُنِ النَّاسِ عَظِیْمٌ وَّمَّنْ تَکَبَّرَ وَضَعَہُ اللہُ فَھُوَ فِیْ اَعْیُنِ النَّاسِ صَغِیْرٌ وَّ فِیْ نَفْسِہٖ کَبِیْرٌ حَتّٰی لَھُوَ اَھْوَنُ عَلَیْھِمْ مِّنْ کَلْبٍ اَوْ خِنْزِیْرٍ؎ ترجمہ:جس نے اللہ کے لیے تواضع اختیار کی اللہ تعالیٰ اس کو بلندی عطا فرماتے ہیں، بس وہ اپنے نفس میں حقیر ہوتا ہے اور لوگوں کی نگاہوں میں عظیم ہوجاتا ہے اور جس نے تکبر کیا اﷲتعالیٰ اسے پست کردیتے ہیں اور وہ ------------------------------