خزائن الحدیث |
|
ہیں کہ دیکھیے ہمیں کہا کرتے تھے اب خود کیسی مصیبت میں گرفتار ہیں لہٰذا وَشَمَاتَۃِ الْاَعْدَآءِسے پناہ مانگو کہ اے اللہ! دشمنوں کو ہم پر طعنہ زنی کا موقع نہ دے۔ اور دوسری دعا ہے: اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ زَوَالِ نِعْمَتِکَ وَ تَحَوُّلِ عَافِیَتِکَ وَ فُجَائَۃِ نِقْمَتِکَ وَجَمِیْعِ سَخَطِکَ؎ اس کا ترجمہ دلالتِ التزامی سے یہ ہے کہ اے اللہ! ہمیں ہر گناہ سے بچا جو سبب ہے آپ کی ناراضگی کا۔حدیثِ بالا کی شرح دوسرے عنوان سے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی اُمت کو سکھایا کہ اللہ تعالیٰ سے فیصلے بدلوالو ، تقدیریں بدلوالو۔ تقدیر مخلوق نہیں بدل سکتی مگر خالق اپنے فیصلے کو بدل سکتا ہے، بس اللہ ہی سے فریاد کرو اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ جَھْدِ الْبَلَاءِ وَ دَرْکِ الشَّقَاءِ وَسُوْءِ الْقَضَاءِ وَشَمَاتَۃِ الْاَعْدَاءِ اس حدیثِ پاک میں سوءِ قضا سے پناہ مانگی گئی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اے اللہ! اگر میری تقدیر میں کوئی شقاوت، بد بختی اور سوء قضا یعنی وہ فیصلے جو میرے حق میں بُرے ہیں لکھ دیے گئے ہیں تو آپ ان کو اچھے فیصلوں سے تبدیل فرما دیجیے، شقاوت کو سعادت سے اور سوءِ قضا کو حسنِ قضا سے تبدیل فرما دیجیے۔ یہاں’’ سوء‘‘ کی نسبت قاضی کی طرف نہیں مقضی کی طرف ہے یعنی برائی کی نسبت حق تعالیٰ کی طرف نہیں ہے، کیوں کہ حق تعالیٰ کا کوئی فیصلہ بُرا نہیں ہو سکتا، لیکن جس کے خلاف وہ فیصلہ ہے اس کے حق میں بُرا ہے، جیسے جج کسی مجرم کو پھانسی کی سزا دیتا ہے تو جج کا فیصلہ بُرا نہیں، یہاں برائی کی نسبت جج کی طرف نہیں کی جائے گی،کیوں کہ اس نے تو انصاف کیا ہے،لیکن جس مجرم کے خلاف یہ فیصلہ ہوا ہے اس کے حق میں بُرا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا کوئی فعل حکمت سے خالی نہیں، وہ خالقِ خیر و شر ہے، جس طرح تخلیقِ خیر حکمت سے خالی نہیں اسی طرح تخلیقِ شر بھی حکمت سے خالی نہیں مثلاً ظلمت سے نور کی، کفر سے ایمان کی معرفت ہوتی ہے وغیرہ، لہٰذا اللہ تعالیٰ کے کسی فعل کی طرف سوء کی نسبت نہیں کی جا سکتی۔ کفر کو پیدا کرنا اﷲ پاک کی عینِ حکمت ہے،لیکن جب کفر کی نسبت بندہ کی طرف ہوتی ہے اور بندہ اس کو اختیار کرتا ہے تو کفر اس کے لیے آفت و بدنصیبی و شقاوت ہے۔ معلوم ہوا کہ جزااور سزا کسب پر ہے۔ جو ایمان کو کسب کرتا ہے اچھی جزا پاتا ہے اور جو کفر کا ------------------------------