خزائن الحدیث |
شدید پیاس میں ٹھنڈے پانی سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی محبت مطلوب ہے تیسرا جملہ ہے وَمِنَ الْمَآءِ الْبَارِدِ اے اللہ! اپنی محبت مجھے اتنی دے دے کہ شدید پیاس میں ٹھنڈے پانی سے بھی زیادہ۔ شدید پیاس میں ٹھنڈے پانی سے رگ رگ میں جان آجاتی ہے، جان میں سینکڑوں جان معلوم ہوتی ہے۔ اس شدید پیاس میں پانی جتنا پیارا ہوتا ہے، اے اللہ! اس سے زیادہ آپ مجھے پیارے ہو جائیے، اپنی ایسی محبت میری جان کو عطا فرما دیجیے۔اَللّٰھُمَّ اغْسِلْ خَطَایَایَ بِمَاءِ الثَّلْجِ کی الہامی تشریح گناہوں سے دل پر دو قسم کے عذاب آتے ہیں، ایک تو اندھیرا پیدا ہوتا ہے اوردوسرے دل میں جلن اور سوزش پیدا ہوتی ہے، اس لیے کہ گناہ کا تعلق دوزخ سے ہے، لہٰذا دل میں گرمی، جلن اور سوزش اور اندھیرا پیدا ہوتا ہے، اسی لیے سرورِ دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ہمیں استغفار کا عجیب مضمون عطا فرمایا ہے: اَللّٰھُمَّ اغْسِلْ خَطَایَایَ بِمَاءِ الثَّلْجِ؎ اے اللہ! میرے گناہوں کو دھو دے برف کے پانی سے وَالْبَرَدِ اور اولے کے پانی سے۔ میرے شیخ نے مجھے جب یہ حدیث پڑھائی تو ڈاکٹر عبدالحی صاحب عارفی رحمۃ اللہ علیہ جونپور سے اعظم گڑھ آئے ہوئے تھے اور مجلس میں موجود تھے۔ انہوں نے سوال کیا کہ برف اور اولے کے پانی سے گناہوں کے دھلوانے کی کیوں درخواست کی جا ری ہے؟ حضرت کو جواب معلوم نہیں تھا۔ آنکھ بند کر کے سر کو جھکایااور چند سیکنڈ کے بعد فرمایا کہ آ گیا آ گیا، جواب آ گیا۔ فرمایا کہ گناہ سے دو باتیں پیدا ہوتی ہیں: ایک حرارت اور گرمی، دوسری اندھیرے۔ گناہوں سے اندھیر ے کیوں آتے ہیں؟ اس کا جواب اختر سے سن لو کہ چوں کہ سورج کے ڈوبنے سے عالم میں اندھیرا پیدا ہو جاتا ہے، تو سورج کا پیدا کرنے والا جس سے منہ پھیر لے اس کے دل میں اندھیرا نہیں آئے گا؟ میرے شیخ نے فرمایا کہ برف کا پانی ٹھنڈا ہوتا ہے، اس کے ذریعہ گناہوں کے دھونے کی درخواست کی جا رہی ہے،تاکہ گناہوں کی گرمی ٹھنڈک سے تبدیل ہو جائے اور اولے کا پانی چمکدار ہوتا ہے،اس کے ذریعہ سے اندھیرے اجالوں میں تبدیل ہوجائیں گے۔ ------------------------------