خزائن الحدیث |
|
حدیث نمبر۷۸ خَیْرُکُمْ مَّنْ تَعَلَّمَ الْقُرْاٰنَ وَعَلَّمَہٗ؎ ترجمہ:تم میں سب سے بہترین شخص وہ ہے جو قرآن پاک سیکھے اور سکھائے۔احادیث میں مذکور دو عظیم الشان خیر مندرجہ ذیل تقریر احقر نے بمبئی میں دعوۃ الحق کے ایک جدید مدرسہ تعلیم القرآن کے افتتاح پر بحکمحضرت مرشدنا ہردوئی دامت برکاتہم کیتھی۔احقر نے عرض کیا تھا کہ حدیثِ پاک میں وارد ہے خَیْرُکُمْ مَّنْ تَعَلَّمَ الْقُرْاٰنَ وَعَلَّمَہٗ تم میں بہترین لوگ وہ ہیں جو قرآن پاک سیکھیں اور سکھائیں۔ حاصل یہ کہ قرآن پاک سیکھنے سے خیر نہ ہوگے جب تک سکھاؤ گے بھی نہیں، لیکن قرآن کی تعلیم دینے کے لیے ہر شخص کو موقع کہاں! نہ ہر شخص کے پاس اتنا وقت ہے، نہ تمام خلق اس میں لگ سکتی ہے۔ پس اس کا طریقہ یہ ہے کہ جو تعلیم قرآن دینے والے ہیں ان کے ساتھ تعاون کرنے والا بن جائے، خادمِ معلّمین قرآن بن جائے، اس طرح سے کہ ان کی تنخواہوں کی فکر رکھے، ان کیراحت و فراغت کا خیال رکھے اور تعلیم کے لیے بچوں کو اور ان کے وارثین کو ترغیب دے، قرآن پاک کے مکاتب کی تعمیر میں حصہ لے،تو ان شاء اﷲ!یہ بھی عَلَّمَہٗ میں داخل ہوجائے گا۔ حدیث شریف ہے: خَیْرُکُمْ مَّنْ ذَکَّرَکُمْ بِاللہِ رُؤْیَتُہٗ وَزَادَ فِیْ عِلْمِکُمْ مَنْطِقُہٗ وَرَغَّبَکُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ عَمَلُہٗ؎ پہلی حدیث میں تعلیم و تعلمِ قرآن کی جو خیر مذکور ہے اس کے ساتھ طلبائے کرام اور اساتذۂ کرام دوسری خیر بھی حاصل کریں کہ ان کو دیکھ کر اﷲیاد آجائے، ان کی وضع قطع سے یہ معلوم ہو کہ یہ اﷲ والے لوگ ہیں، ان کی باتوں سے علم میں اضافہ ہو اور ان کے عمل سے آخرت کیرغبت پیدا ہو، چناں چہ ہر دوئی کے طلبائے کرام کی وضع قطع ایسی ہے کہ دور ہی سے اﷲ والے معلوم ہوتے ہیں،لہٰذا ضروری ہے کہ مدارس کے طلباء کو ------------------------------