خزائن الحدیث |
|
ہم نالائقوں کے پاس آپ کے لائق اس سے بہتر کوئی تحفہ نہیں، مگر یہ تحفہ ہم نے آپ کے رسول سرورِ عالم سید الانبیاء صلی اﷲ علیہ وسلم سے سیکھا جن سے زیادہ آپ کا کوئی مزاج شناس نہیں۔کریم کے چار معانی محدثین نے کَرِیْمٌکے چار معانی بیان کیے ہیں: ۱) اَلَّذِیْ یَتَفَضَّلُ عَلَیْنَا بِدُوْنِ الْاِسْتِحْقَاقِ وَ الْمِنَّۃکریم وہ ہے جو اپنے کرم سے نالائقوں کو بھی محروم نہ کرے، جس کا حق نہ بنتا ہو اس کو بھی عطا فرما دےجو ہم پر بغیر اہلیت کےاور باوجود ہماری نالائقی کے مہربانی کر دے، جیسے ایک بادشاہ نے اپنے خادم سے کہا کہ رمضانی!مگساں می آیند۔ رمضانی! میرے پاس مکھیاں آ رہی ہیں۔ اس نے جواب دیا کہ حضور! ناکساں پیش کساں می آیند۔ حضور! نالائق، لائق کے پاس آ رہی ہیں۔ پس کریمِ حقیقی تو ہمارا اللہ ہے کہ بُرے اعمال سے ہمارا ظاہر بھی گندا اور ہمارا باطن بھی گندا کہ اندر پیشاب پاخانہ بھرا ہوا ہے لیکن ہم جیسے نالائقوں کو بھی اپنے پاس آنے سے منع نہیں کرتے بلکہ حکم دے دیا کہ وضو کر لو اور میرے حضور میں آجاؤ۔ اسی طرح باوجود ہماری باطنی گندگی یعنی گناہوں میں ملوث ہونے کے ہر سانس اور ہر لمحہ ہم پر انعامات کی بارش ہو رہی ہے۔ ۲) اَلَّذِیْ یَتَفَضَّلُ عَلَیْنَا فَوْقَ مَا نَتَمَنّٰی بِہٖ یعنی ہماری تمناؤں سے زیادہ ہم پر رحم کرنے والا کہ ہم اگر ایک بوتل شہد مانگیں تو وہ ڈھائی من کامَشک دے دے، جو ہماری تمناؤں سے زیادہ دے دے، جیسے ایک کریم سے کسی نے ایک بوتل شہد مانگا اس نے ایک مشک دے دیا۔ کسی نے کہا کہ اس نے تو ایک بوتل مانگا تھا آپ نے پوری مشک کیوں دی؟ کہا کہ اس نے مانگا اپنے ظرف کے مطابق، میں نے دیا اپنے ظرف کے مطابق۔ جب دنیاوی کریموں کا یہ حال ہے جن کو کرم کی ایک ذرّہ بھیک مل گئی ہے، تو اس کریمِ حقیقی کے کرم کا کیا ٹھکانہ ہے ؎ میرے کریم سے گر قطرہ کسی نے مانگا دریا بہا دیے ہیں دُر بے بہا دیے ہیں ۳) اَلَّذِیْ لَا یَخَافُ نَفَادَ مَا عِنْدَہٗکریم وہ ہے جو ہمیں بے انتہا عطا فرما دے اور اپنے خزانوں کے ختم ہونے کا جسے اندیشہ نہ ہو،کیوں کہ غیر محدود خزانوں کا مالک ہے اور اپنے خزانوں سے بے نیاز ہے، ہمارے لیے ہی وہ خزانے ہیں۔ ------------------------------