خزائن الحدیث |
|
نورِ تقویٰ لَا اِلٰہَ کے منفی اوراِلَّا اللہُکے مثبت تار سے پید ا ہوتا ہے یہ تقاضے گناہ کے ہمیں اللہ تک پہنچانے کا ذریعہ ہیں، تقویٰ کی بنیاد اسی پر ہے کہ تقاضا ہو پھر ہم اس پر عمل نہ کریں۔ مثبت و منفی دو تار ہیں ۔ گناہ کا تقاضا ہونا منفی تار ہے۔ ہم نے اللہ کے خوف سے اپنے آپ کو بچایایہ مثبت تار ہے ۔ آج سائنس دانوں کی تحقیق ہے کہ دو تاروں سے دنیا کی روشنی ہوتی ہے۔ اللہ نے دونوں تار ہمیں دے دیے۔ لَا اِلٰہَ کا منفی تار اور اِلَّا اللہُ کا مثبت تار، دونوں تاروں سے ایمان اور تقویٰ کا نور اور ولایت کا نور ملتا ہے، لہٰذا آپ تقاضوں سے گھبرائیں نہیں، جتنا زیادہ شدید تقاضا ہو سمجھ لو کہ ہمیں خدائے تعالیٰ اپنا بہت بڑا ولی بنانا چاہتے ہیں( بہ شرط توفیقِ تقویٰ)، لیکن یہ توفیق اور ہمت ملتی ہے اہلِ ہمت کی صحبت سے۔ حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ تین کام کر لو تو تقویٰ والے بن جاؤ گے: ۱)… خود ہمت کرو۔ ۲)…ہمت کی خدا سے دعا کرو۔ ۳)…اہلِ ہمت کی صحبت میں رہو اور ان سے عطائے ہمت اور استعمالِ ہمت کی دعا کراؤ۔ اگر ہم نے ان پر عمل کر لیا،تو ان شاء اللہ تعالیٰ میں اپنے بزرگوں کی تعلیمات کی روشنی میں عرض کرتا ہوں کہ سوفیصد ہم سب ولی اللہ ہو جائیں گے: ۱)… کسی اللہ والے سے جس سے مناسبت ہو تعلق قائم کرنا یعنی صحبت اہل اللہ کا اہتمام۔ ۲)… اس سے پوچھ کر ذکر کا دوام۔ اب تیسری چیز رہ گئی گناہوں سے بچنے کا التزام اور گناہ سے بچنا موقوف ہے اہل اللہ کی صحبت پر ۔ کتنا ہی انسان پڑھ لے، پڑھالے، امامت کر لے ، چلّے لگا لے، مگر تقویٰ جب ہی ملے گا جب اہلِ تقویٰ کی صحبت نصیب ہو گی،جس پر آیت کُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ دلالت کرتی ہے یعنی کُوْنُوْامَعَ الْمُتَّقِیْنَ اور صادق اور متقی ایک ہی چیز ہے جس کی دلیل یہ آیت ہے: اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ صَدَقُوۡا ؕ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُتَّقُوۡنَ ؎ ------------------------------