خزائن الحدیث |
|
ذکر پر خشیت کی تقدیم کا راز اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ وَسَاوِسَ قَلْبِیْ خَشْیَتَکَ وَ ذِکْرَکَ میں خشیت کو پہلے کیوں بیان فرمایا؟ تاکہ خشیت غالب رہے،کیوں کہ محبت جب خوف پر غالب ہوجاتی ہے تو بدعت ہو جاتی ہے۔ خشیت محبت کو حدودِ شریعت کا پابند رکھتی ہے۔ میرے شیخ شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا تھا کہ وَ اَمَّا مَنْ جَآءَ کَ یَسْعٰیمیں صحابی کا دوڑ کر آنا بوجہ محبت کے تھا وَھُوَ یَخْشٰی؎ اور وہ ڈر بھی رہے تھے، یہ حال ہے اور حال ذوالحال کے لیے قید ہوتا ہے یعنی ان کی محبت خشیت کی پابند تھی۔ معلوم ہوا کہ جب محبت خشیت کی حدود کو توڑتی ہے تو بدعت ہو جاتی ہے۔ اور خشیت کا تضاد تو محبت تھی، لیکن حدیثِ پاک میں محبت کے بجائے ذکر کیوں فرمایا؟ اس لیے کہ ذکر سببِ محبت اور حاصلِ محبت ہے۔ جو ذکر کرے گا اس سے معلوم ہو گا کہ اس کو محبت حاصل ہے، ورنہ جو محبت، محبت تو کر رہا ہے لیکن اللہ کا ذکر نہیں کرتا وہ محبت میں صادق نہیں، لہٰذا یہاں ذکر کی قید سے منافقین نکل گئے۔ جو صَادِقْ فِی الْمَحَبَّۃِنہیں وہ ذاکر نہیں ہو سکتا۔ حضرت حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب وسوسوں اور خیالات کا ہجوم ہو تو کہو، واہ! کیا شان ہے اے اللہ! آپ کی،کہ ڈیڑھ چھٹانک کے دل میں آپ نے خیالات کا سمندر بھر دیا،کیماڑی کا سمندر بھی بھرا ہوا ہے، کلفٹن بھی ہے اور کشمیر کی پہاڑیاں بھی گھسی ہوئی ہیں، سارا عالم ایک ذرا سے دل میں سمایا ہوا ہے، ایک چھوٹی سی چیز میں خیالات کا سمندر چلا آ رہا ہے۔ تو فرمایا کہ یہ خیالات کا ہجوم جو شیطان نے ڈالا تھا اللہ سے دور کرنے کو، اس شخص نے بزرگوں کی تعلیما ت کی برکت سے اس کو ذریعۂ معرفت اور ذریعۂ قرب بنا لیا، تو پھر شیطان ہاتھ مَلتا ہے اور افسوس کرتا ہوا بھاگتا ہے کہ اس نے تو میرے وساوس کو بھی ذریعۂ معرفت بنا لیا۔ اس طرح وسوسوں کو ذریعۂ معرفت بنالیجیے اور یہ بات حدیث سے ثابت ہے۔ سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ وَسَاوِسَ قَلْبِیْ خَشْیَتَکَ وَذِکْرَکَ اے اللہ! میرے دل کے خیالات کو اپنا خوف اور اپنییاد بنا دے۔ اور دوسری ایک حدیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے، مشکوٰۃ کی روایت ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ------------------------------