خزائن الحدیث |
|
جائے تو اس وقت دوبارہ پڑھ لیں تو کس نے منع کیا ہے؟بچوں کو بعد عشاء تہجد کی مشق جو بچے حافظِ قرآن ہو جائیں ان کو عشاء کے بعد وتر سے پہلے دو رکعات تہجد کی نیت سے پڑھوادیں، تاکہ وہ اس حدیث کے پورے مصداق ہوجائیں جس میں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میری امت کے بڑے لوگ حافظِ قرآن اور اصحابُ اللیل ہیں۔ دارالاقامہ میں اس کا اہتمام کیا جائے کہ عشاء کے فرض اور سنت کے بعد دو رکعات پڑھوا دی جائیں، اس کے بعد وتر پڑھیں اور یہ حدیث سمجھا دیں کہ دیکھو بیٹے! تم حاملِ قرآن تو ہوگئے، لیکن اب اصحابُ اللیل ہو جاؤ تاکہ اس حدیثِ پاک کے دونوں جز کے تم مصداق ہوجاؤ۔شرح حدیث بعنوانِ دگر حضورِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اَشْرَافُ أُمَّتِیْ حَمَلَۃُ الْقُرْاٰنِ وَاَصْحَابُ اللَّیْلِ؎ میری امت کے بڑے لوگ حافظِ قرآن اور تہجد گزار ہیں، حَمَلَۃُ الْقُرْاٰنِ کے بعد اَصْحَابُ اللَّیْلِ فرما کر یہ بتا دیا کہ یہ شرافت مکمل جب ہوگی جب مقرب بالکلام کے ساتھ مقرب بصاحب الکلام یعنی مقرب بالمتکلم بھی ہو۔ مراد یہ ہے کہ حافظِ قرآن اﷲتعالیٰ کا مقرب بھی ہو، مگر اس قربِ خاص کے حصول کا ذریعہ تہجد کی نماز ہے۔ چناں چہ تہجد کے فضائل میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے چار باتیں بیان فرمائی ہیں۔ عَلَیْکُمْ بِقِیَامِ اللَّیْلِیہ عَلٰی وجوب کے لیے نہیں ترغیب کے لیے ہے اور وجوب بھی اگر مانا جائے تو وجوبِ رابطہ کہا جاسکتا ہے، شرعی اور ضابطہ کا وجوب مراد نہیں،چناںچہ مفتیٰ بہ قول یہی ہے کہ یہ نماز سنتِ مؤکدہ بھی نہیں نفل ہے جو موجب ِقرب ہے اور اس نماز کو اگر آخر شب میں نہ پڑھ سکے تو وتر سے قبل دو رکعت ہی پڑھ لے بہ نیت صلوٰۃ اللیل اور دوسری صورت یہ ہے کہ اشراق کے وقت قضا کرلے۔ وہ چار باتیں نافع نماز تہجد کی یہ ہیں:(۱)فَاِنَّہٗ دَأْبُ الصّٰلِحِیْنَ قَبْلَکُمْ جملہ صلحائے امت کامعمول ہے اور مشابہت بالمحبوبین والمقبولین سببِ محبوبیت و مقبولیت ہے۔(۲)وَقُرْبَۃٌ لَّکُمْ اِلٰی رَبِّکُمْیہ نماز مقرب بارگاہِ حق بناتی ہے اِلٰی کے استعمال میں کبھی غایۃ مغیا میں داخل ہوتی ہے جیسے ذَہَبْتُ ------------------------------