خزائن الحدیث |
|
ایک دفعہ ایک صاحب نے مجمع میں پوچھا کہ گناہوں کی معافی کا طریقہ آپ نے آہ وزاری، اشکباری بتایاتھا، لیکن کتنا روؤں کتنی توبہ کروں اور کیسے معلوم ہو گا کہ اللہ تعالیٰ نے معاف کر دیا؟ اس کی کوئی علامت ہے؟ میں نے عرض کیا کہ جب اللہ تعالیٰ تمہارے آنسوؤں پر رحم فرمائیں گے تو شانِ رحمت کا احساس قلب کو ہو جائے گا، دل میں ٹھنڈک اور سکون آ جائے گا۔ یہی علامت ہے کہ معافی ہو گئی۔اشد محبت مانگنے کا طریقہ حدیثِ پاک سے اب اس کے بعد سرورِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حدیث میں اس اشد محبت کے مانگنے کا ڈھنگ سکھادیا۔ بخاری شریف کی حدیث ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا مانگ کر اُمت کو سکھایا کہ اس طرح مانگو۔ واہ! کیا بات ہے۔ اتباع کی لذت الگ اور اللہ تعالیٰ سے مانگنے کی لذت الگ ہے۔ جب اُمتی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ میں اللہ تعالیٰ سے سوال کرے گا، تو الفاظِ نبوت نورِ نبوت کے حامل ہوتے ہیں، اس کے مزہ کا کیا پوچھتے ہو؟ نبی کے الفاظ کی لذت الگ ، نبی کے اتباع کی لذت الگ اور اللہ سے مانگنے کی لذت الگ۔اہل اللہ سے محبت ذوقِ نبوت ہے اور کیا مانگو گے؟ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْاَلُکَ حُبَّکَ اے اللہ! مجھے آپ اپنی محبت دے دیجیے۔ وَحُبَّ مَنْ یُّحِبُّکَاور جو لوگ آپ سے محبت کرتے ہیں ان کی محبت بھی دےدیجیے، آپ کے عاشقوں کی محبت بھی میں مانگتا ہوں۔ اب آپ بتائیے کہ جو ظالم یہ کہے کہ کتابوں سے میں اللہ والا بن جاؤں گا،مجھے اللہ والوں کی کوئی ضرورت نہیں ہے، اس کا یہ استغناء بخاری شریف کی اس حدیث کی روشنی میں حماقت ہے یا نہیں؟ سرورِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم تو اللہ تعالیٰ کے عاشقوں کی محبت مانگ رہے ہیں، تو کون ظالم اس سے مستغنی ہو سکتا ہے؟ یہ دلیل ہے کہ یہ شخص کورا ہے، مرادِ نبوت اور ذوقِ نبوت سے ناآشنا ہے۔ وَ حُبَّ عَمَلٍ یُّبَلِّغُنِیْ حُبَّکَاور اے اللہ! ایسے اعمال کی محبت دے دے جن سے تیری محبت ملے۔ علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اللہ کی محبت اور اعمال کی محبت کے درمیان میں اللہ والوں کی محبت کیوں مانگی گئی ہے؟ اس لیے کہ یہ اللہ کی محبت اور اعمال کی محبت کے درمیان رابطہ ہے۔ یعنی اللہ والوں کی محبت میں یہ خاصیت ہے کہ اللہ والوں کے پاس بیٹھنے سے اللہ تعالیٰ کی محبت بھی مل جاتی ہے اور اعمال کی محبت بھی مل جاتی ہے۔