خزائن الحدیث |
|
سَھْرُ الْعُیُوْنِ لِغَیْرِ وَجْھِکَ ضَائِعٗ وَ بُکَاءُ ھُنَّ بِغَیْرِ فَقْدِکَ بَاطِلٗ اے اللہ! آنکھوں کی وہ بیداری جو آپ کے دیدار کے علاوہ ہو یا آپ کے لیے نہ ہو، وہ بیداری ضایع اور بےکار ہے اور آنکھوں کا وہ رونا جو آپ کی جدائی کے غم سے نہ ہو باطل ہے۔ تو معلوم ہوا کہ تَسْقِیَانِ الْقَلْبَ بِذُرُوْفِ الدَّمْعِ عینین کے لیے صفتِ ثانیہ ہے یعنی حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اخلاص کے آنسو طلب فرمائے کہ وہی دل کو بھی سیراب کرتے ہیں۔ اﷲ والی آنکھوں کی تیسری صفت نبی علیہ السلام عرض کرتے ہیں قَبْلَ اَنْ تَکُوْنَ الدُّمُوْعُ دَمًا وَّ الْاَضْرَاسُ جَمْرًا اے اللہ! یہ رونے کی توفیق اسی حیاتِ دنیا میں عطا فرمائیے،قبل اس کے کہ یہ آنسو خون ہوں اور داڑھیں انگارے ہوجائیں یعنی دوزخ میں تو دوزخی بھی روئے گا، لیکن اس کے آنسو خون کے ہوں گے اور اس کی داڑھیں انگارے ہوں گی، تو یہ آنسو کس کام کے؟یہ تو سزا والے آنسو ہیں، رحمت کے آنسو تو وہ ہیں جو دنیا میں اللہ کے لیے نکلیں۔ قَبْلَ اَنْ تَکُوْنَ الدُّمُوْعُ دَمًا... الٰخ یہ ظرف ہے اور ہر ظرف مظروف کے لیے بمنزلہ قید ہوتا ہے اور قید بمنزلہ صفت ہوتی ہے،پس یہ نحوی صفت تو نہیں ہے لیکن معنوی صفت ہے،یہ تمام اوپر کی شرح حق سبحانہٗ وتعالیٰ نے احقر کو اپنی رحمت سے عطا فرمائی ہے۔ ذٰلِکَ مِمَّا خَصَّنِیَ اللہُ تَعَالٰی بِلُطْفِہٖ۔حدیث نمبر۲۸ اَنْ نَّقْتَرِفَ سُوْءً عَلٰی اَنْفُسِنَا اَوْ نَجُرَّہٗ اِلٰی مُسْلِمٍ؎ اَوْ اَکْسِبَ خَطِیْئَۃً اَوْ ذَ نْۢبًا لَّا تَغْفِرُہٗ؎ ------------------------------