خزائن الحدیث |
|
ترجمہ:اے اللہ! میں آپ سے عافیت مانگتا ہوں اور دوامِ عافیت مانگتا ہوں اور عافیت پر شکر کی توفیق مانگتا ہوں۔ ملتزم پر رحمت ہمارے ساتھ مقیم ہوئی تو مستغفر و تائب ہو گئے اور اپنے ملکوں میں آتے ہی پھر سارے گناہ شروع کر دیے، رمضان میں تو ولی اللہ ہو گئے اور عید کا چاند دیکھتے ہی شیطان بن گئے اور تقویٰ کا لبادہ اُتار کر پھینک دیا۔ یہ دلیل ہے کہ ہماری شامتِ اعمال کے سبب دوامِ عنایتِ حق ابھی ہمیں حاصل نہیں اسی لیے سرورِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم دعا فرماتے ہیں کہ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْاَلُکَ الْعَافِیَۃَ وَدَوَامَ الْعَافِیَۃِ وَالشُّکْرَ عَلَی الْعَافِیَۃِ؎ اے اللہ! میں آپ سے عافیت مانگتا ہوں اور دوامِ عافیت مانگتا ہوں اور عافیت پر شکر کی توفیق مانگتا ہوں۔ ملّا علی قاریرحمۃ اللہ علیہ نے شرح مشکوٰۃ المسمی بالمرقاۃ میں عافیت کے یہ معنیٰ لکھے ہیںاَلسَّلَامَۃُ فِی الدِّیْنِ مِنَ الْفِتْنَۃِ وَالسَّلَا مَۃُ فِی الْبَدَنِ مِنْ سَیِّیءِ الْاَسْقَامِ وَالْمِحْنَۃِ یعنی دین سلامت رہے گناہوں سے اور بدن سلامت رہے بُرے بُرے امراض سے اور محنتِ شاقہ سے۔ معلوم ہوا کہ دوامِ عافیت و دوامِ عنایتِ حق مطلوب ہے کہ اس سے ہی ہمارا دین اور ہماری دنیا سلامت رہ سکتی ہے اور شکر سے نعمت میں ترقی ہوتی ہے اور حقیقی شکر تقویٰ ہے۔حدیث نمبر۳۵ مَنْ خَرَجَ فِیْ طَلَبِ الْعِلْمِ کَانَ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ حَتّٰی یَرْجِعَ؎ ترجمہ:جو علمِ دین کی طلب میں گھر سے نکلا تو وہ اُس شخص کے مانند ہے جو جہاد کے لیے نکلا، یہاں تک کہ وہ گھر لوٹ آئے۔ اگر علم کو دل پروری کا ذریعہ بناؤ کہ دل بن جائے، دل اللہ والا ہوجائے، اللہ کی رضا حاصل ہوجائے، تو یہ علم تمہارا بہترین دوست ہے، اسی لیے حدیثِ پاک میں ہے، ترمذی شریف کی حدیث ہے: مَنْ خَرَجَ فِیْ طَلَبِ الْعِلْمِ کَانَ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ حَتّٰی یَرْجِعَ جواللہ کی رضا کے لیے علم کی طلب میں گھر سے نکلا، اُس کے لیے اُس مجاہد کا ثواب ہے جو جہاد کے لیے نکلا ہے یہاں تک کہ وہ گھر لوٹ آئے، کیوں کہ دین کو زندہ کرنے میں اور شیطان کو ذلیل کرنے میں اور نفس پر مشقت اٹھانے میں وہ مجاہد ہی کی طرح ہے۔ اسی طرح علمائے سوء ------------------------------