خزائن الحدیث |
|
حدیث نمبر ۱۱ سَبْعَۃٌ یُّظِلُّھُمُ اللہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فِیْ ظِلِّہٖ یَوْمَ لَا ظِلَّ اِلَّا ظِلُّہٗ اِمَامٌ عَادِلٌ وَّ رَجُلٌ قَلْبُہٗ مُعَلَّقٌ بِۢالْمَسَاجِدِ وَ شَابٌّ نَشَأَ فِیْ عِبَادَۃِ رَبِّہٖ …الٰخ؎ ترجمہ: سات قسم کے لوگ ایسے ہیں جن کو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اپنے عرش کا سایہ نصیب فرمائیں گے جس دن سوائے اس کے کوئی اور سایہ نہ ہوگا، ان میں پہلا شخص ہےامامِ عادل۔ اور ایک وہ آدمی ہے جس کا دل مسجد میں اٹکا رہےاور وہ جوان جو اپنے عالمِ شباب کو اﷲ پر فدا کردے۔امامِ عادل کی عجیب الہامی شرح حدیثِ پاک میں ہے:سَبْعَۃٌ یُّظِلُّھُمُ اللہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فِیْ ظِلِّہٖ یَوْمَ لَا ظِلَّ اِلَّا ظِلُّہٗ سات قسم کے لوگ ایسے ہیں جن کو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اپنے عرش کا سایہ نصیب فرمائیں گے، جس دن سوائے اس کے کوئی اور سایہ نہ ہوگا۔ ان میں پہلا شخص ہے امامِ عادل۔ آپ کہیں گے کہ اس حصہ کو تو ہم حاصل نہیں کرسکتے کیوں کہ امامِ عادل کے معنیٰ ہیں سلطان، بادشاہ اور امیرالمؤمنین۔ ہم لوگ کیسے بادشاہ بن سکتے ہیں لہٰذا علامہ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ بدرالدین عینی رحمۃ اللہ علیہ اور ملّا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ شراحِ حدیث نے ایک ایسا نکتہ بتایا کہ ہم سب کے سب اس صف میں شامل ہو سکتے ہیں اور گھر کا ہر بڑا شخص اپنے گھر کا امام ہے۔قرآن مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا؎جس کی تفسیر میں حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہاں متقیوں کی امامت مقصود نہیں ہے، بلکہ یہ کہنا ہے کہ اے اللہ! ہم اپنے گھر کے امام تو ہیں ہی، لیکن اگر میرے گھر والے نا فرمان رہیں گے تو میں امامُ الفاسقین رہوں گا اور اگر ------------------------------