خزائن الحدیث |
|
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے دریافت کیا:یا رسول اللہ (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم)! کیا آپ کی اُمت میں کوئی ایسا بھی ہے جو بے حساب کتاب جنت میں داخل ہو گا؟ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں! جو اپنے گناہوں کو یاد کر کے روتا ہے۔ بخاری شریف میں باب مَنْ جَلَسَ فِی الْمَسْجِدِ یَنْتَظِرُ الصَّلٰوۃَ وَ فَضْلِ الْمَسَاجِدِ کے ذیل میں امام بخاری رحمۃ اﷲ علیہ نے یہ حدیث تحریر فرمائی ہے سَبْعَۃٌ یُّظِلُّھُمُ اللہُ فِیْ ظِلِّہٖ یَوْمَ لَاظِلَّ اِلَّا ظِلُّہٗ قیامت کے دن سات (قسم کے ) آدمی ایسے ہوں گے جن کو حق تعالیٰ شانہ عرش کا سایہ عطا فرمائیں گے، ان میں ایک شخص وہ ہو گا وَ رَجُلٌ ذَکَرَ اللہَ خَالِیًا فَفَاضَتْ عَیْنَاہُ وہ آدمی جو اللہ تعالیٰ کو تنہائی میںیاد کرے اور پھر اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگیں۔ شرح بخاری فتح الباری جلد:۲،صفحہ:۱۴۷ پر حافظ ابن حجرعسقلانی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں ذَکَرَاللہَ اَیْ بِقَلْبِہٖ مِنَ التَّذَکُّرِ اَوْ بِلِسَانِہٖ مِنَ الذِّکْرِذکر اللہ سے مراد دل میں یاد کرنا اللہ تعالیٰ کو یا زبان سے ذکر کرنا اور خَالِیًایعنی تنہائی کی قید اس لیے ہے کہ ریا سے محفوظ رہے لِاَنَّہٗ یَکُوْنُ حِیْنَئِذٍاَبْعَدَ مِنَ الرِّیَاءِ وَالْمُرَادُ خَالِیًا مِّنَ الْاِلْتِفَاتِ اِلٰی غَیْرِ اللہِ وَ لَوْ کَانَ فِیْ مَلَأٍ یعنی مراد تنہائی سے یہ ہے کہ قلب متو جہ الی اللہ ہو اور غیر اللہ سے خالی ہو اگرچہ مجمع میں ہو۔ اور اس مفہوم کی تائید امام بیہقی کی اس روایت سے ہوتی ہے ذَکَرَاللہَ بَیْنَ یَدَیْہِ لیکن مطلق تنہائی جہاں کوئی نہ ہو اس مفہوم کی تائید عبداللہ بن مبارک رحمۃ اﷲ علیہ اور حماد بن زید رحمۃ اﷲ علیہ کی روایت ذَکَرَاللہَ فِیْ خَلَاءٍسے ہوتی ہے اَیْ فِیْ مَوْضِعٍ خَالٍیعنی بالکل تنہائی ہو، کوئی مخلوق نہ ہو اور حافظ عسقلانی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں ھِیَ الْاَصَحُّیہی زیادہ صحیح ہے۔ احقر عرض کرتا ہے کہ اہلِ محبت کو ذوقاً بھی یہی خلوت محبوب ہے۔؎حدیث نمبر۴۶ اَللّٰھُمَّ لَا تُخْزِنِیْ فَاِنَّکَ بِیْ عَالِمٌ وَّلَا تُعَذِّبْنِیْ فَاِنَّکَ عَلَیَّ قَادِرٌ؎ ------------------------------