خزائن الحدیث |
|
أَیْ أَدَامَ اللہُ فَرْحَکَ؎ اے اﷲ کے رسول! اﷲ تعالیٰ آپ کی فرحت اور خوشی کو ہمیشہ قائم رکھے۔ ہمیشہ ہنسنے سے یہاں فرحتِ قلب مراد ہے،کیوں کہ جب فرحتِ قلب نہ ہوگی تو ہنسی کیا آئے گی؟ تو دلالتِ التزامی سے حضرت عمر رضی اﷲعنہ نے دعادی کہ اَدَامَ اللہُ فَرْحَکَ اﷲ تعالیٰ آپ کو ہمیشہ خوش رکھے اور آپ کے قلب کی فرحتوں کو اﷲتعالیٰ ہمیشہ قائم رکھیں، اسی لیے عر ض کردیا کہ بعض لوگ ایک حدیث دیکھ کر مفتی بن جاتے ہیں کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم تبسم فرماتے تھے، ہنستے نہیں تھے، دوسری احادیث ان کے مطالعے میں نہیں، تو جب کسی عالم کو ہنستے دیکھتے ہیں تو اعتراض کرتے ہیں کہ صاحب! یہ کیا ہے؟ حالاں کہ میں آپ کو ایک حدیث سناتا ہوں کہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے مامو ں تھے، انہوں نے جنگ بدر میں ایک مشرک کو تیر سے مار گرایا، وہ ننگا ہوگیا، فَضَحِکَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَتّٰی نَظَرْتُ اِلٰی نَوَاجِذِہٖ؎ آپ علیہ السلام اتنا ہنسے کہ داڑھیں مبارک نظر آنے لگیں، لہٰذا علم پورا ہونا چاہیے، اردو کی کتابیں پڑھ کر علماء کی اِصلاح مت کیجیے، مفتی نہ بنیے۔ہنسنے میں بھی دل اﷲ سے غافل نہ ہو غرض ہمارے بزرگ ہنستے بھی ہیں اور ہنساتے بھی ہیں،لیکن ان کا دل اﷲ سے غافل نہیں ہوتا۔ ایک مجلس میں حضرت خواجہ عزیز الحسن مجذوب رحمۃ اﷲ علیہ خوب ہنسے اور مفتی شفیع صاحب رحمۃ اﷲ علیہ اور دوسرے پیر بھائیوں کو بھی خوب ہنسایا، بعد میں خواجہ صاحب نے پوچھا کہ سچ سچ بتائیں، ہنسی کی اس محفل میں کیا آپ کے دل اﷲ سے غافل تھے؟ تو مفتی صاحب نے فرمایا کہ بوجہ ادب کے ہم سب خاموش ہوگئے، اس پر حضرت خواجہ صاحب نے فرمایا کہ الحمد ﷲ!اس وقت بھی میرا دل اﷲ تعالیٰ کے ساتھ مشغول ------------------------------