خزائن الحدیث |
|
میرا دل اس وقت بھی اللہ تعالیٰ کے ساتھ مشغول تھا پھر یہ شعرپڑھا ؎ ہنسی بھی ہے گو لبوں پہ ہر دم اور آنکھ بھی میری تر نہیں ہے مگر جو دل رو رہا ہے پیہم کسی کو اس کی خبر نہیں ہے اور ایک مثال اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالی کہ کسی باپ کے بہت سے بچے ہوں جو باپ کے نہایت فرماں بردار ہوں اور باپ ان سے خوش ہو، وہ جب آپس میں ہنستے ہیں تو باپ خوش ہوتا ہے کہ میرے بچے کیسے ہنس رہے ہیں! اور نافرمان بچے جن سے باپ نا خوش ہے وہ جب ہنستے ہیں، تو باپ کو غصہ آتا ہے کہ مجھے نا خوش کیا ہوا ہے اور نالائق ہنس بھی رہے ہیں۔ جن بندوں نے اللہ کو راضی کیا ہوا ہے اور جو اللہ کو ناخوش نہیں کرتے، اپنی آرزوؤں کو توڑ دیتے ہیں، لیکن اللہ کے قانون کو نہیں توڑتے ان کے ہنسنے سے اللہ تعالیٰ خوش ہوتے ہیں اور جو غافل اور نا فرمان ہیں ان کی ہنسی بھی اللہ کو نا پسند ہے، دونوں کے ہنسنے میں زمین و آسمان کا فرق ہے، غافل کی ہنسی اور ہے ذاکر کی ہنسی اور ہے۔ اس پر میرا شعر ہے ؎ دل ہے خنداں جگر میں ترا درد و غم تیرے عاشق کو لوگوں نے سمجھا ہے کم حضرت حکیم الامت مجدد الملت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جو لوگ زیادہ سنجیدہ ہوتے ہیں اکثر متکبر ہوتے ہیںاورفرمایا کہ ہنستا بولتا آدمی اچھا ہوتا ہے،اس میں تکبر نہیں ہوتا۔ میں بھی بچپن سے خاموش طبع، فکرمند جو ہر وقت کچھ سوچتا رہتا ہو ایسے لوگوں سے دور بھاگتا تھا۔ مجھے بھی خوش طبع اور ہنسنے بولنے والے لوگوں سے مناسبت ہوتی ہے۔ زیادہ خاموش اور سنجیدہ قسم کے لوگوں سے وحشت ہوتی ہے۔ ایکشخص خوب ہنستا بولتا رہتا ہے لیکن جب کوئی حسین شکل سامنے آتی ہے نابینا بن جاتا ہے، آنکھ بندکرلیتا ہے، نظر اُٹھا کرنہیں دیکھتا ؎ جب آ گئے وہ سامنے نابینا بن گئے جب ہٹ گئے وہ سامنے سے بینا بن گئے ایک گناہ نہیں کرتا، بتائیےیہ شخص اچھا ہے یا وہ جو بالکل خاموش آنکھیں بند کیے باخدا بنا ہوا ہے، لیکن جیسے ہی کوئی کشتی نظر آئی نا خدا بن گیا اور سوار ہو گیا یعنی بدنگاہی کرنے لگا۔ اکثر وہ لوگ جو سنجیدہ اور مقدس بنتے ہیں، کسی سے بات نہیں کرتے، تجربہ ہے کہ یہی لوگ ہیں جن کے بارے میں اکبر الٰہ آبادی نے کہا تھا ؎