خزائن الحدیث |
|
اور دفتر اور آفس جس کی وجہ سے اُن کو فش ملتا ہے اور ڈش ملتا ہے، اگر آفس نہ چلے تو فش بھی غائب اور ڈش بھی غائب ۔ موت کے وقت آفس اور ڈش سب ساتھ چھوڑ دیتے ہیں یا نہیں؟یا آفس ساتھ جاتا ہے کہ صاحب جو کاروبار چھوڑ کر جا رہے ہیں اس کی ترقی کے لیے وقتاً فوقتاً ہدایت جاری کرتے رہیں گے۔ تو اَللّٰھُمَّکےمعنیٰ ہیں اے اللہ! اور اللہ اسمِ اعظم ہے۔ کیا مطلب؟ کہ میرے اسمِ اعظم کے صدقہ میں بھیک مانگو کہ اَللّٰھُمَّ لَا تُخْزِنِیْ اے اللہ! مجھے رسوا کرنے کی جو قدرت آپ کو حاصل ہے تو رُسوا نہ کرنے کی بھی آپ کو قدرت ہے۔ ایک طرفہ قدرت پر اللہ تعالیٰ مجبور نہیں ہے کہ ایک قدرت رسوا کرنے کی تو حاصل ہو اور دوسری قدرت رسوا نہ کرنے کی حاصل نہ ہو اور قدرت کی تعریف کیا ہے؟ فلسفہ کا قاعدۂ مسلمہ ہے اور اس پر میں بڑے بڑے ایم ایس اور بڑے سے بڑے سائنس دان کو للکارتا ہوں کہ اپنی سائنس کے زور سے میری اس بات کو ذرا رد کر کے دکھاؤ کہ قدرت ضدین سے متعلق ہوتی ہے یعنی قدرت کہتے ہیں کہ ضدین پر قدرت حاصل ہو، جو کام کر سکتا ہو اس کو نہ بھی کر سکتا ہو اس کا نام قدرت ہے۔ اگر کسی کی گردن ایک طرف کو اکڑ گئی ہے دوسری طرف نہیں مُڑ سکتی تو اس کو کہتے ہیں کہ تشنج ہو گیا ہے، کزاز ہو گیا ہے، ٹٹنس ہوگیا ہے اس کو قدرت نہیں کہتے۔ یہ سب طب کی کتابوں میں مجھ کو پڑھایا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا کرم ہے کہ آج میری طبِ یونانی طبِ ایمانی میں تبدیل ہو رہی ہے۔ تو فلسفے کے قاعدۂ مسلمہ کے مطابق قدرت نام ہے جو ضدین سے متعلق ہو۔ جو کام کر سکتا ہو نہ بھی کر سکتا ہو۔ چناں چہ ایک فلسفہ داں نے حکیم الامت کو لکھا کہ میں جب کسی حسین پر نظر ڈالتا ہوں تو پھر ہٹا نہیں سکتا، میرے اندر طاقت ہٹانے کی نہیں ہوتی۔ حضرت نے لکھا کہ آپ غلط کہتے ہیں، اگر آپ دیکھنے کی طاقت رکھتے ہیں تو نہ دیکھنے کی بھی آپ کو طاقت ہے، کیوں کہ قدرت ضدین سے متعلق ہوتی ہے۔اَللّٰھُمَّ لَا تُخْزِنِیْکی شرح کا درد انگیز عاشقانہ اور نادر عنوان وہ خالقِ سائنس اور خالقِ فلسفہ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبی اُمی کو جو کسی مکتب کا پڑھا ہوا نہیں تھا علومِ نبوت عطا فرما رہا ہے کہ آپ اس طریقہ سے اُمت کو سکھائیے مگر کمال ہے شفقت اور رحمت کا کہ اس نبی رحمت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اُمت کی خطاؤں کو خود اوڑھ لیا اور عرض کیا:لَاتُخْزِنِیْ اے خدا! اپنے نبی کو رُسوا نہ کیجیے۔ کیا شانِ رحمت ہے رحمۃ للعالمین کی اور کلامِ نبوت کا کیا کمالِ بلاغت ہے کہ رحمتِ حق کو جوش دلانے کے لیے امت کی رسوائی کو اپنی رسوائی سے تعبیر کیا ورنہ کیا نبی بھی کہیں رسوا ہوتا ہے؟ نبی تو معصوم