خزائن الحدیث |
|
حدیث نمبر۹۸ کَانَ یُحَدِّثُنَا وَکُنَّا نُحَدِّثُہٗ وَاِذَا سَمِعَ الْاَذَانَ کَاَنَّہٗ لَمْ یَعْرِفْنَا وَلَمْ نَعْرِفْہُ؎ ترجمہ:حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ہم سے گفتگو کرتے تھے اور ہم حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے گفتگو کرتے تھے اور جس وقت اذان کی آواز سنائی دی توگویا کہ آپ ہمیں پہچانتے نہیں اور نہ ہم آپ کو پہچانتے۔ کَانَ یُحَدِّثُنَا وَکُنَّا نُحَدِّثُہٗ حضور صلی اﷲتعالیٰ علیہ وسلم ہم سے گفتگو کرتے تھے اور ہم حضور صلی اﷲعلیہ وسلم سے گفتگو کرتے تھے اِذَا سَمِعَ الْاَذَانَ کَاَنَّہٗ لَمْ یَعْرِ فْنَا وَلَمْ نَعْرِفْہُ جہاں اذان کی آواز آئی تو جیسےحضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ہمیں پہچانتے بھی نہیں تھے۔ یہ ہے حلال نعمت کی سنّت کہ حلال نعمت سے بھی اتنا دل نہ لگاؤ کہ نعمت دینے والے کی عبادت میں خلل پیدا ہو جائے اور حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی صحبت کی برکت سے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو بھی ایسا قوی ایمان عطا ہوا کہ فرماتی ہیں وَلَمْ نَعْرِفْہُ ہمیں بھی ایسا لگتا تھا کہ اللہ کی عظمت کے سامنے گویا ہم بھی حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کو نہیں پہچانتے تھے۔ )اس کے بعد حضرت والا زیدمجدھم نے فرمایا:(’’ لہٰذا ایک مرتبہ تہجد میں کئی کئی پارے تلاوت کرنے کے بعد جب آپ صلی اﷲتعالیٰ علیہ وسلم کی روحِ مبارک حق تعالیٰ کے قربِ عظیم سے مشرف تھی اس حالت میں حضرت عائشہ صدیقہ پہنچ گئیں اور عرض کیا: یا رسول اللہ! فرمایا: مَنْ اَنْتِ ؟ تم کو ن ہو؟ عرض کیا!اَنَا عَائِشَۃُ میں عائشہ ہوں۔ فرمایا: مَنْ عَائِشَۃُ عائشہ کون؟ عرض کیا:بِنْتُ اَبِیْ بَکْرٍابوبکر کی بیٹی، فرمایا: مَنْ اَبُوْ بَکْرٍکون ابو بکر؟ عرض کیا: اِبْنُ اَبِیْ قُحَافَۃَ میرے دادا ابو قحافہ کے بیٹے، فرمایا: مَنْ اَبُوْ قُحَافَۃَ ابوقحافہ کون ہے؟ میں نہیں جانتا۔ حضرت عائشہ صدیقہ خوفزدہ ہو کر واپس ہوگئیں۔ پھراللہ تعالیٰ نے اس مقامِ عروج سے جب آپ کی روحِ مبارک کو اُمت کی خدمت کے لیے نزول بخشا تاکہ ------------------------------