خزائن الحدیث |
|
پٹائی ہو رہی ہے اور بدلہ نہیں لے سکتے تو ایسا کر کے بھاگ جاتے ہیں۔کبھی بعضے بڑے بھی کر جاتے ہیں کہ زبان کو باہر نکالا اور دائیں بائیں کو ہلا دیا۔ اور اس طرح مذاق اُڑا دیتے ہیں اور کچھ نہیں بولتے۔ دیکھیے کلامِ نبوت کی کیا بلاغت ہے اَلْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لِّسَانِہٖ؎ فرمایا کہ اس میں وہ لوگ بھی داخل ہو گئے جو صرف زبان سے تکلیف پہنچا دیتے ہیں، اگرچہ کوئی لفظ زبان سے نہیں نکالتے۔ اگر مِنْ اَلْفَاظِ لِسَانِہٖ ہوتا تو زبان سے تکلیف پہنچانے والے اس حدیث میں شامل نہ ہوتے۔ یہ کلامِ نبوت کی بلاغت کا اعجاز ہے۔حدیث نمبر ۵۴ لَیْسَ شَیْءٌ اَحَبَّ اِلَی اللہِ مِنْ قَطْرَتَیْنِ وَاَثَرَیْنِ قَطْرَۃِ دُمُوْعٍ مِّنْ خَشْیَۃِ اللہِ وَقَطْرَۃِ دَمٍ تُھْرَاقُ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ …الٰخ؎ ترجمہ: اللہ تعالیٰ کے نزدیک کوئی چیز دو قطروں سے زیادہ محبوب نہیں: ایک آنسو کا وہ قطرہ جو اللہ کے خوف سے نکلا ہو اور دوسرا خون کا وہ قطرہ جو اللہ کے راستے میں گرا ہو۔ گڑ گڑا کر معافی مانگنے والوں کے لیے علامہ آلوسی تفسیر روح المعانی پارہ ۳۰ سورۂ قدر کی تفسیر میں ایک حدیثِ قدسی نقل کرتے ہیں۔ حدیثِ قدسی وہ حدیث ہے جو زبانِ نبوت سے نکلے، مگر نبی کہہ دے کہ اللہ تعالیٰ نے یوں فرمایا ہے تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ یہ فرماتے ہیں کہ جب کوئی بندہ گڑ گڑا کر معافی مانگتا ہے کہ اللہ! مجھ سے بڑے گناہ ہو گئے، آپ مجھ کو معاف کر دیجیے، قبر میں کیا منہ لے کر جاؤں گا، قیامت کے دن آپ کو کیا منہ دکھاؤں گا تو اس کا یہ گڑ گڑانا اتنا اللہ کو پسند ہے کہ اس کے گڑ گڑانے کی اس آواز کو اللہ تعالیٰ لوگوں کی سبحان اللہ،سبحان اللہ کی تسبیحات سے زیادہ پسند کرتے ہیں۔ اب حدیثِ قدسی کے الفاظ بھی سن لیجیے ۔ اہلِ علم حضرات تفسیر روح المعانی پارہ۳۰سورۃ القدر کے ذیل میں اس حدیث کو دیکھ لیں۔ سرورِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰیہ فرماتے ہیں: ------------------------------