خزائن الحدیث |
|
دوستوں سے خوش طبعی کر رہا ہو،یہ ہر وقت باغِ قرب میں ہے اور اللہ کا راستہ اس کے لیے گویا پھولوں کے جھرمٹ اور درختوں کے سائے میں نہایت سکون و عافیت سے گزر جائے گا اور بہت مزے میںیہ منزل تک پہنچ جائے گا۔ اسی لیے مولانا نے فرمایا کہ اے اللہ! صرف آپ ہی ہمارا مقصد، ہمارا مقصود، ہماری مراد، ہماری آرزوؤں اور تمناؤں کا مرکز بن جائیں تاکہ آپ کا راستہ ہم پر نہایت آسان اور انتہائی لذیذ ہوجائے۔ شیطان کے لیے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے اِنَّہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ ؎شیطان تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے۔ اور نفس و شیطان دونوں بھی مراد لیے جا سکتے ہیں لیکن شیطان کا یہاں مراد ہونا زیادہ اقرب الیٰ القیاس ہے کیوں کہ دشمن ازلی اور مردودِ ازلی ہے اس کی دشمنی کبھی ختم نہیں ہو سکتی اور نفس کا اگر تزکیہ ہوجائے تو یہ ولی اللہ بھی ہو جاتا ہے،تو شیطان ظالم ہم سے کتنا حسد رکھتا ہے۔ پس اے خدا! میں اس دشمن کے خلاف آپ سے فریاد کرتا ہوں، جیسے کوئی دشمن کسی بچہ کو مار رہا ہو تو وہ بچہ اپنے ابا کو پکارتا ہے۔ پس اے اللہ! اس دشمن شیطان اور دشمن نفس کے ستانے پر ہم آپ ہی کو پکار رہے ہیں کہ آپ سے ہماری فریاد ہے کہ اس دشمن کی پٹائی سے ہمیں بچا لیجیے۔حدیث نمبر۴۲ اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنِیْ مِنَ التَّوَّابِیْنَ وَاجْعَلْنِیْ مِنَ الْمُتَطَھِّرِیْنَ؎ ترجمہ:اے اﷲ! مجھے بہت زیادہ توبہ کرنے والوں میں سے بنا دیجیےاور بہت پاکیزہ لوگوں میں سے بنا دیجیے۔ حضرت ملّا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے وضو کے بعد کی مسنون دعا اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنِیْ مِنَ التَّوَّابِیْنَ وَاجْعَلْنِیْ مِنَ الْمُتَطَھِّرِیْنَ کی تشریح میں لکھا ہے کہ اے خدا! ہم نے وضو تو کر لیا اور اپنے ظاہری اعضا پاک کرلیے، لیکن ہمارے ہاتھ دل تک نہیں پہنچ سکتے، ہم اپنے دل کو پاک نہیں کرسکتے، دل کا وضو تیرے ہاتھ میں ہے، لہٰذا ہمیں توفیقِ توبہ بھی دے دے تاکہ ہمارا دل بھی پاک ہو جائے اور ہم پاک صاف لوگوں میں ہوجائیں۔ شریعت نے جس وقت کی جو دعا بتائی ہے اس میں ایک خاص مناسبت اور جوڑ ہے۔ دیکھیے وضو میں اور اس دعا میں کیسا جو ڑ ہے کہ وضو کے پانی سے اپنے اعضائے بدن کو پاک کرنا تو میرے اختیار میں تھا، لیکن دل کو ------------------------------