خزائن الحدیث |
|
میرے سامنے ہے کہ قیامت کے دن نہ جانے’’اشرف علی‘‘ کا کیا حال ہو گا۔اُولٰٓئِکَ اٰبَائِیْ فَجِئْنِیْ بِمِثْلِھِمْ۔ علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ جاہ کے علاج کے لیے ایک شعر کافی ہے ؎ ہم ایسے رہے یا کہ ویسے رہے وہاں دیکھنا ہے کہ کیسے رہے دوستو! سوچو کہ اس میں کوئی لغت فارسی ، عربی نہیں ہے، مگر یہ شعر کبر کے علاج کے لیے عجیب و غریب ہے۔ فرماتے ہیں کہ اتنے بڑے علامہ ہو گئے ، اتنے بڑے تاجر ہو گئے، تمام دنیا تعریف کر رہی ہے، لیکن دیکھنا یہ ہے کہ قیامت کے دن ہماری کیا قیمت لگتی ہے۔ اگر اس دن اللہ ہم سے راضی ہو گیا تب ہماری قیمت ہے، ورنہ دنیا کی جاہ و عزت و تعریف کسی کام کی نہیں۔ لہٰذا حکیم الامت فرماتے ہیں کہ مرنے سے پہلے اپنی قیمت نہ لگاؤ۔ اگر دنیا میں اپنی قیمت لگاؤ گے تو یہ انٹرنیشنل، بین الاقوامی حماقت ہو گی۔ میرے شیخ فرماتے تھے کہ کبر کا مرض ہمیشہ بے و قوفوں میں ہوتا ہے۔ آپ خود سوچئے کہ نتیجہ یعنی رزلٹ نکلنے سے پہلے کوئی طالب علم نازو نخرے کرے تو بے و قوف ہے یا نہیں؟ لہٰذا حُبِّ جاہ کا علاج ہو گیا۔سب سے بڑا اِلٰہِ باطل ’’حُسنِ مجازی‘‘ہے اب آئیے! ایک مرض اور شدید ہے۔ وہ ہے حسن پرستی ،اس موضوع پر میری ایک کتاب ہے، ’’روح کی بیماریاں اور ان کا علاج‘‘ شایدیہاں بھی مل جائے گی۔ اگر آپ اپنے نوجوان بچوں اور طلبائے کرام کو پڑھا دیں، تو ان شاء اللہ تعالیٰ حسن کے ڈاکوؤں سے ان کی جوانی محفوظ رہے گی۔ میرے شیخ حضرت مولانا ابرار الحق صاحب دامت برکاتہم نے اس کتاب کی زبردست قدر فرمائی اور ایک صاحب کو خط میں لکھا کہ جس کا دل غیراللہ سے لگ گیا ہوتو اختر کی کتاب’’ روح کی بیماریاں اور ان کا علاج ‘‘اس کوسناؤ۔ تقاضائے گناہ، گناہ نہیں ہے، تقاضے پر عمل کرنے سے گناہ ہوتا ہے۔ جیسے روزہ میں سو دفعہ دل چاہے کہ ٹھنڈا پانی پی لو، لیکن جو شخص مجاہدہ کرتا ہے اور پانی نہیں پیتا تو اس کا اجر زیادہ ہے، لہٰذا اگر تقاضائے گناہ کو برداشت کرتا ہے، گناہ نہیں کرتا تو یہ شخص بہت بڑا ولی اللہ ہو گا ان شاء اللہ تعالیٰ، کیوں کہ اس کا مجاہدہ شدید ہے تو اس کا مشاہدہ بھی شدید ہو گا، جتنا زیادہ مجاہدہ ہو گااتنا ہی زیادہ مشاہدہ ہو گا۔