خزائن الحدیث |
|
میرے بیٹے مولانا مظہر میاں کو بخار تھا، مولانا ابرار الحق صاحب ڈھاکہ میں تھے اور اختر بھی وہیں تھا، حضرت سے میں نے عرض کیا کہ حضرت! میرے بیٹے کو بخار ہورہا ہے، حضرت نے فرمایا کہ ٹیلی فون ملاؤ، ڈھاکہ سے کراچی ٹیلی فون ملایا گیا اور حضرت نے ٹیلی فون پر یہ دعا سات مرتبہ پڑھی، جب میں واپس کراچی آیا تو مظہرمیاں نے کہا کہ دعا پڑھتے ہی بخار بھاگنے لگا۔ ڈاکٹروں کو خاص طور سے یہ دعا نوٹ کرلینی چاہیے اور مریض سے کہنا چاہیے کہ تم بھی ہمارے لیے دعا کرو، کیوں کہ مریض کی دعا قبول ہوتی ہے جب تک کہ وہ شفا نہ پائے، مریض کی دعا پر فرشتے آمین کہتے ہیں، لہٰذا مریض سے دعا کی درخواست کرنی چاہیے اور نمبر پانچ یہ کہ اﷲ تعالیٰ بھائی کی دعا بھائی کے لیے رد نہیں فرماتے جب کہ وہ اس کے لیے غائبانہ دعا کرے، اس لیے ہمارے بزرگوں کا دستور ہے کہ سب سے کہتے ہیں کہ بھائی! ہمارے لیے دعا کرنا، کیوں کہ غائبانہ دعا جلد قبول ہوتی ہے۔کون سی دعا جلد قبول ہوتی ہے؟ اب دعا کی ان پانچوں قسموں میں کس دعا کی رفتار زیادہ تیز ہے، دعا کی پانچ ٹرینوں کا جو تذکرہ ہوا، ان میں کون سی ٹرین منزل پر جلد پہنچتی ہے؟ اس کا فیصلہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم فرما رہے ہیں: اِنَّ اَسْرَعَ الدُّعَاءِ اِجَابَۃً دَعْوَۃُ غَائِبٍ لِّغَائِبٍ؎ بھائی کی دعا جو بھائی کے لیے غائبانہ کی جائے وہ سب سے زیادہ جلد قبول ہوتی ہے یعنی اس کا مسلمان بھائی اس کے پاس موجود نہیں ہے پھر بھی اس کے لیے دعا کر رہا ہے تو ایسی دعا فوراً قبول ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ جب کوئی اﷲوالوں کے پاس کثرت سے آنا جانا رکھتا ہے، تو اﷲ والے اس کے لیے اپنی دعا کی رفتار اور زیادہ تیز کردیتے ہیں کیوں کہ اسے بار بار دیکھنے سے اس کییاد اور زیادہ آتی ہے، لہٰذا اﷲ والوں سے بھی دعا کے لیے کہتا رہے اور دوسرے لوگوں سے بھی دعا کراتا رہے، بڑے بھی اپنے چھوٹوں سے دعا کے لیے کہتے ہوئے نہ شرمائیں، اُستاد شاگرد سے، شیخ مرید سے اور باپ بیٹے سے دعا کرائے، اپنے چھوٹوں سے دعا کرانا بھی سنت ہے۔ حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ عمرہ کرنے جارہے تھے، انہوں نے حضور صلی اﷲتعالیٰ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ مجھے اجازت دیجیے کہ میں عمرہ کرآؤں۔آپ صلی اﷲتعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: ------------------------------