خزائن الحدیث |
|
نے اہل اللہ سے تعلق جوڑا کہ ہمارا نفس مٹ جائے اور مٹنے سے جو پھر ان کو مقبولیت عطا ہوئی،ایسی شہرت وعزت اللہ نے دی کہ قیامت تک ان کا نام زندہ رہے گا۔ تکبر سے عزت نہیں ملتی اور تکبر کا مقصد عزت حاصل کرنا ہی تو ہے لیکن اس راستہ سے خدا عزت نہیں دیتا بلکہ گردن مروڑ دیتا ہے، اگر کسی کو عزت ہی لینی ہے تو اپنے کو مٹائے پھر دیکھیے کہ اللہ تعالیٰ کیسی عزت دیتا ہے لیکن یہ مٹانا عزت کے لیےنہ ہو بلکہ اللہ کے لیے ہو۔ مَنْ تَوَاضَعَ کے بعد لِلہِفرمایا اس کے بعد رَفَعَہُ اللہُ ہے۔ معلوم ہوا کہ تواضع پر رفعت وعزت اُس وقت ملے گی جب یہ تواضع اللہ کے لیے ہو جس نے اللہ کے لیے اپنے کو گرادیا اللہ اس کو عزت دیتا ہے۔ حضرت حکیم الامت تھانوی فرماتے ہیں کہ یہ نعمت صوفیاء کے اندر خاص ہوتی ہے کہ بزرگوں کی صحبت میں رہ کر اپنے نفس کو مٹاتے چلے جاتے ہیں۔ بہت کچھ ہوتے ہیں لیکن اپنے کو کچھ نہیں سمجھتے۔حدیث نمبر۵۱ اِنَّ لِلہِ مَا اَخَذَ وَلَہٗ مَا اَعْطٰی وَکُلٌّ عِنْدَہٗ بِأَجَلٍ مُّسَمًّی؎ ترجمہ:بے شک اﷲ تعالیٰ ہی کا ہے جو اس نے واپس لے لیا اور اسی کی ملکیت ہے جو کچھ اس نے عطا کیا اور ہر شئے کا اس کے پاس ایک وقت مقرر ہے۔ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے والد حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جب انتقال ہوا تو بہت لوگوں نے تعزیت کی لیکن ایک بدوی (دیہاتی) بزرگ آئے اور انہوں نے ایسی تعزیت کی جس سے حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو بہت تسلی ہوئی، انہوں نے کہا کہ اے عبداللہ ابن عباس! تمہارے والد کا انتقال ہو گیا۔ یہ بتاؤ کہ تمہارے والد کے لیے تم زیادہ بہتر ہو یا عباس کا اللہ زیادہ بہتر ہے اور عباس کی وفات سے جو تمہیں غم پہنچا اور اس مصیبت پر صبر کے بدلہ میں جو تمہیں اجر و ثواب ملا بلکہ اس سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ مل گیا تو یہ بتاؤ کہ یہ انعامِ عظیم تمہارے لیے کیا عباس سے بہتر نہیں ہے؟ سبحان اللہ! کیا ------------------------------