خزائن الحدیث |
|
ہو گا۔ اگر مکمل فائدہ اور شیخ کا فیضِ کامل چاہتے ہو تو دل کے پردوں کو مٹاؤ، اللہ کے راستہ کا غم اٹھاؤ اور شیخ کا بتایا ہوا ذکر کرتے رہو، ان شاء اللہ جذبِ فیضِ شیخ کی صلاحیت پیدا ہو جائے گی اور شیخ کے رنگ میں رنگ جاؤ گے۔کیفیت ِاحسانی اور صحبت ِاہل اللہ لہٰذا صحبتِ شیخ کو نعمتِ عظمیٰ سمجھو اور اپنی تمام نفلی عبادات و اذکار سے زیادہ شیخ کی صحبت کے ایکایک لمحہ کو غنیمت سمجھو۔ اگر صحبت ضروری نہ ہوتی اور علم کافی ہوتا، تو قرآن پاک پڑھ کر ہم سب صحابی ہو جاتے۔ تلاوتِ قرآن پاک سے کوئی صحابی نہیں ہوتا، نگاہِ نبوت سے صحابی ہوتا ہے۔ نگاہِ نبوت سے صحابہ کو وہ کیفیتِ احسانی حاصل ہوئی تھی کہ ان کا ایک مُد جَو صدقہ کرنا ہمارے اُحد پہاڑ کے برابر سونا صدقہ کرنے سے افضل ہے۔ یہ سرورِ عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔ اور اب حضور صلی اﷲ علیہ وسلم جیسا حاملِ کیفیت ِاحسانیہ قیامت تک کوئی نہیں آئے گا لہٰذا اب کوئی شخص صحابی نہیں ہو سکتا۔ اس حدیث ِپاک میں سرورِ عالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے بتا دیا کہ تمہارا اُحد پہاڑکے برابر سونا خرچ کرنا اس کیفیت ِاحسانیہ کے ساتھ نہیں ہو گا، جس کیفیت ِاحسانی سے میرا صحابی ایک مُد جَو اللہ کے راستہ میں دے گا۔ اور کیفیت ِاحسانی کیا ہے؟ اَنْ تَعْبُدَ اللہَ کَاَنَّکَ تَرَاہُقلب کو ہر وقت یہ کیفیتِ راسخہ حاصل ہو جائے کہ اللہ مجھے دیکھ رہا ہے۔ میرے شیخ فرماتے تھے کہ جس کو یہ کیفیت ِراسخہ حاصل ہو گئی اس کا ایمان بھی حسین ہو جاتا ہےاور اس کا اسلام بھی حسین ہو جاتا ہے۔ احسان بابِ افعال سے ہے اور بابِ افعال کبھی معنیٰ میں اسمِ فاعل کے ہوتا ہے۔ احسان معنیٰ میں محسن کے ہے۔ معنیٰ یہ ہوئے کہ احسان ایمان کو بھی حسین کردیتا ہے، اسلام کو بھی حسین کر دیتا ہے، اس کی بندگی ہر وقت حسین رہتی ہے۔ جس کو ہر وقت یہ استحضار ہوکہ میرا اللہ مجھ کو دیکھ رہا ہے اس کا ایمان حسین نہیں ہو گا؟ اس کو تو ہر وقت حضوری حاصل ہو گی، ایمان بالغیب نام کا ایمان بالغیب رہ جائے گا اور اس کااسلام بھی حسین ہو جائے گا یعنی اس کی نماز، اس کی تلاوت اس کا سجدہ سب حسین ہو جائے گا۔ لہٰذا شیخ کے پاس اضافۂ علم کی نیت سے نہ جاؤ، اس نیت سے جاؤ کہ اس کے قلب کی کیفیتِ احسانی، اللہ تعالیٰ کا تعلق، قُرب و حضوری، ہمتِ تقویٰ و ایمان ویقین کا اعلیٰ مقام ہمارے قلب میں منتقل ہوجائے۔ نفعِ لازم کی فکر کرو، نفعِ متعدی کی نیت بھی نہ کرو کہ یہ بھی غیر اللہ ہے اور نفعِ لازم کو نفعِ متعدی لازم ہے جیسے کہیں کوئی کباب تلا جا رہا ہے۔ تلنے سے کباب خود لذیذ ہو رہا ہےاور نفعِ لازم حاصل کر رہاہے، لیکن اس کی خوشبو جب