خزائن الحدیث |
|
ترقی ادنیٰ سے اعلیٰ کی طرف دی جاتی ہے، جیسے انٹر کے طالب علم کو بی اے میں داخلہ دیا جاتا ہے، لیکن اس کی ایک مثال اللہ تعالیٰ نے میرے قلب کو عطا فرمائی کہ کبھی ابا اپنے چھوٹے بچے کو لڈو دیتا ہے اور کہتا ہے کہ خوش ہو جا اور میں بھی تجھ سے خوش ہوں جب ہی تو یہ لڈو دیا ہے، اگر ناراض ہو تا تو کیوں دیتا؟ تو جس طرح ابا اپنی خوشی کو مؤخر کرتا ہے اور بچہ کی رعایت سے اس کی خوشی کو مقدم کرتا ہے، تو جب ابا کی شفقت کا یہ تقاضا ہے تو ہمارے ربّا نے بھی ہمارا دل خوش کرنے کے لیے ہماری خوشی کو پہلے بیان کر دیا۔ وہاں شفقتِ پدری ہے اور یہ شفقتِ ربوبیت ہے اور ماں باپ کہاں سے شفقت لائیں گے، یہ بھی اللہ تعالیٰ کی شفقت کا ظہور ہے۔ مولانا رومیرحمۃ اللہ علیہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرماتے ہیں ؎ مادراں را مہر من آمو ختم اے ماؤں کی محبت پر ناز کرنے والو! ماؤں کو محبت کرنا تو میں نے ہی سکھایا ہے، اگر میں ان کے جگر میں محبت نہ ڈالتا تو یہ کہاں سے محبت لاتیں؟ تو سوچو کہ پھر میری رحمت کا کیا عالم ہو گا۔ یہ تو ایک حصۂ رحمت کا ظہور ہے جس سے سارے عالم میں مخلوق ایک دوسرے سے محبت کر رہی ہے، ننانوے حصۂ رحمت تو میرے پاس ہے جس کا ظہور قیامت کے دن ہو گا۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم سے زیادہ مزاج شناسِ الوہیت کون ہوسکتا ہے؟ لہٰذا آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے کلام کی اتباع میں اسی ترتیب سے دعا مانگی کہ اے اللہ! آپ ہمیں خوش کر دیجیے اور ہم سے خوش ہوجائیے۔ آہ! بچہ یہی کہتا ہے کہ ابا! ہم کو خوش کردیجیے اور آپ بھی خوش ہوجائیے۔ اورایک دعا یہ بھی کرتا ہوں اور سکھاتا بھی ہوں کہ جب اللہ تعالیٰ سے کوئی خوشی مانگو، تو یوں کہو کہ اے اللہ! ہم تو آپ کو خوش نہیں کر سکے، بوجہ اپنی نالائقی اور ضعفِ بشریت کے،لیکن آپ ہم کو خوش کر دیجیے کہ آپ ہماری طرف سے خوشیوں سے بے نیاز ہیں، لہٰذ اگر آپ ہمیں خوش نہیں کریں گے تو ہم کہاں سے خوشی پائیں گے؟ کیوں کہ آپ کے سوا ہمارا کوئی دوسرا مولیٰ بھی تو نہیں۔ آپ کے سوا ہمارا ہے ہی کون؟