خزائن الحدیث |
|
و حضور مع الحق آپ کے دل میں منتقل ہو جائے گا۔ حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ اپنے بزرگوں سے یہ احسانی کیفیت ملنے سے پھر آپ کی دو رکعات ایک لاکھ رکعات کے برابر ہو جائیں گی اور اپنے بزرگوں کے بارے میں یہی حسنِ ظن رکھیں کہ ان کی دو رکعات ہماری ایک لاکھ رکعات سے افضل ہیں، ان کا ایک سجدہ ہمارے لاکھ سجدے سے افضل ہے،ان کا ایک’’ اللہ‘‘ کہنا ہمارے ایک لاکھ’’ اللہ‘‘ کہنے سے افضل ہے۔ مثال کے طور پرفرض کر لیں کہ اللہ تعالیٰ تھوڑی دیر کے لیے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو دنیا میں بھیج دیں اور ان کی مجلس میں اس امت کے تمام صحابہ اور اُممِ سابقہ کے تمام صحابہ اور اس امت کے تمام اکابر اولیاء اللہ اور اُممِ سابقہ کے تمام اولیاء اللہ موجود ہوں اور حضرت صدیق اکبر ایک بار’’ اللہ‘‘ کہیں اور تمام صحابہ اور اولیاء اللہ ایک بار’’اللہ‘‘ کہیں تو بتائیے حضرت صدیق اکبر کا ’’اللہ‘‘ سب سے بڑھ جائے گا یا نہیں؟اس کی وجہ کیا ہے؟ کیوں کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جو کیفیتِ احسانی حاصل ہے وہ کسی کو حاصل نہیں۔ معلوم ہوا کہ کیفیتِ احسانیہ اصل چیز ہے۔ جس کی کیفیتِ احسانی جتنی قوی ہوتی ہے، اسی اعتبار سے اس کا عمل مقبول ہوتا ہے اور جس کو یہ کیفیت جتنی زیادہ حاصل ہوتی ہے اتنی ہی تیزی سے وہ اللہ کا راستہ طے کرتا ہے جیسے بعض جہاز چھ گھنٹے میں جدہ پہنچتے ہیں اور بعض تین گھنٹے میں پہنچ جاتے ہیں بوجہ زیادہ اسٹیم کے۔ جس کی احسانی کیفیت قوی ہوتی ہے اس کی رفتارِ سلوک میں بہت تیزی آ جاتی ہے اور وہ بہت جلد اللہ تک پہنچتا ہے اسی لیے بزرگوں نے فرمایا کہ اپنی تنہائیوں کی عبادتوں سے لاکھ درجہ بہتر سمجھو کہ کسی صاحبِ نسبت کے پاس تھوڑی دیر بیٹھ جاؤ، وہاں تمہیں پکی پکائی مل جائے گی۔ مولانا رومی فرماتے ہیں کہ اگر سیب خریدنا ہو تو بازار اور منڈی سے مت خریدو، سیب کے باغ میں چلے جاؤ۔ بازار میں تو باسی اور گلا سڑا سیب ملے گا اور بازار کے گرد و غبار اور دھوپ کی گرمی سے الگ سابقہ پڑے گا اور باغ میں تازہ تازہ سیب پا جاؤ گے۔ تو اللہ والوں کے پاس بیٹھنا گویا سیب کے باغ میں بیٹھنا ہے، اگر ان کے یہاں سوتے بھی رہو گے تو ان کی نسبت مع اللہ کے سیب کی خوشبو ملتی رہے گی۔ میرے شیخ حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب دامت برکا تہم فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص رات کی رانی کے نیچے چارپائی بچھا کر سو جائے تو صبح جب اُٹھے گا تو دماغ تازہ ملے گا۔ اسی طرح اولیاء اللہ کی خانقاہوں میں اگر کوئی سو بھی جائے، تہجد بھی نہ پڑھے تو بھی قلب میں نور پہنچ جائے گا۔ سائنس دانوں کے نزدیک تو انسانوں کی سانس میں کاربن ڈائی آکسائیڈ ہوتی ہے لیکن انبیاء علیہم السلام کی سانس میں اور اولیاء اللہ کی سانس میں صرف کاربن ڈائی آکسائیڈ نہیں ہوتی، ان کے پاکیزہ انوار کو سائنس دان کیا جانیں؟ انفاسِ نبوت صحابہ ساز ہوتے ہیں اور انفاسِ اولیاء، اولیاء ساز ہوتے ہیں کیوں کہ