خزائن الحدیث |
غلط قسم کے لوگ رہتے ہیں۔ پھر دو تین دن کے بعد یہی کہتا ہے۔بار بار ایک ہی آیت کا نزول حق تعالیٰ شانہٗ کی رحمت کی دلیل ہے۔ایسے ہی شیخ اور مربی پر رحمت کا غلبہ ہوتا ہے تو بار بار کہتا ہے کہ دیکھو نظر بچانا! دوسری دلیلیہ ہے کہ تکرارِ غذائے جسمانی میں آپ کو اعتراض کیوں نہیں ہوتا؟ روزانہ چائے پیتے ہو،یہاں کیوں نہیں کہتے کہ میاں! کل بھی چائے پلائی، آج پھر پلا رہے ہو۔ جس طرح تکرارِ غذائے جسمانیہ احب ہے، اگر اللہ کی محبت پیدا ہو جائے گی تو تکرارِ علومِ روحانیہ سے بھی مزہ آنے لگے گا۔ اسی طرح بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم اپنے شیخ کی مجلس میں جو سنتے ہیں ہمیں تو کچھ یاد ہی نہیں رہتا، ہمارا حافظہ کمزور ہے،ہمارے پلے تو کچھ پڑتا ہی نہیں لہٰذا وہاں جانا بے کار ہے۔ حضرت حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اگر کچھ بھی یاد نہ رہے تب بھی فائدہ ہوتا ہے جیسے دو تین دن پہلے ہم نے کیا کھایا تھا یاد نہیں رہتا لیکن اس غذا سے جو خون بنا وہ ہماری رگوں میں دوڑ رہا ہے تو جس طرح نسیانِ غذا سے فوائدِ غذا کا فقدان لازم نہیں آتا اسی طرح شیخ کی مجلس میں اس کے علوم و ملفوظات سنے، چاہے وہ یاد نہ رہیں لیکن ان سے جو نور پید اہو گا وہ نور ہماری رگوں میں دوڑتا رہے گا کیوں کہ قلب جہاں جسم میں خون سپلائی کرتا ہے اس کے ساتھ اللہ کا نور بھی سپلائی کرتا ہے، وہ خون جب آنکھوں میں روشنی پیدا کرتا ہے تو ساتھ ہی قلب سے آنکھوں میں اللہ کا نور بھی داخل ہوتا ہے۔ پھر اس کی آنکھوں کو کچھ اور نظر آتا ہے۔ جب نسبت عطا ہوتی ہے تو اس کے زمین و آسمان بدل جاتے ہیں، یہ زمین و آسمان تو کافر بھی دیکھتا ہے لیکن اللہ والوں کے زمین اور آسمان، سورج اور چاند کچھ اور ہی ہوتے ہیں ؎ اب وہ زماں نہ وہ مکاں اب وہ زمیں نہ آسماں تو نے جہاں بدل دیا آ کے مری نگاہ میں لہٰذا جب اپنے بزرگوں کے پاس جائے تو یہ نیت نہ کرے کہ ہمارے علم میں اضافہ ہو گا، معلومات بڑھیں گی بلکہ یہ مراقبہ کرے کہ ان کی احسانی کیفیت، ان کا ایمان و یقین اور ان کا تقویٰ و خشیت اور اللہ سے ان کی محبت ہمارے قلوب میں منتقل ہو رہی ہے اور اس انتقالِ نسبت کی کیا صورت ہوتی ہے؟ اس کو مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ بیان فرماتے ہیں ؎ کہ ز دل تا دل یقیں روزن بود