خزائن الحدیث |
بنائی جا رہی ہیں ایمان، تقویٰ اور غمِ تقویٰ سے یعنی حصولِ تقویٰ میں بندہ جو مجاہدات اور حسرت اور غم اُٹھاتا ہے اور خونِ تمنا پیتا ہے اسی خونِ تمنا سے آنکھیں بنائی جا رہی ہیں اور جب آنکھیں بنائی جاتی ہیں تو پٹی بندھی رہتی ہے، اس وقت دیکھنے کی ڈاکٹر اجازت نہیں دیتا اور جب روشنی آ جاتی ہے تو پٹی ہٹا دی جاتی ہے، جنت میں اللہ تعالیٰ یہ پٹی ہٹا دیں گے۔ وہاں کاف کی پٹی ہٹا دی جائے گی پھر اَنَّکَسے اللہ تعالیٰ کو دیکھو گے۔ یہ تقریر میرے شیخ حضرت شاہ عبدالغنی صاحب پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ کی ہے جو ایک واسطے سے حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد ہیں۔ علامہ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے فتح الباری شرح بخاری میں اس احسانی کیفیت کو بیان فرمایا ہے کہ احسان کیا ہے؟ فرماتے ہیں: اَنْ یَّغْلِبَ عَلَیْہِ مُشَاھَدَۃُ الْحَقِّ بِقَلْبِہٖ حَتّٰی کَاَنَّہٗ یَرَاہُ بِعَیْنِہٖ؎ یعنی مشاہدۂ حق ایسا غالب ہو جائے کہ گویا وہ اپنی آنکھوں سے اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہا ہے۔ اس کیفیت کو مدارس سے، کتابوں سے، تبلیغ سےاورتدریس سے کوئی نہیں پا سکتا۔ یہ کیفیت صرف اور صرف اہل اللہ کے سینوں سے سینوں میں منتقل ہوتی ہے۔ کیفیات کے حامل قلوب ہوتے ہیں، قوالب اور اوراقِ کُتب نہیں ہوتے، کتابوں سے یہ چیز نہیں مل سکتی۔ کمیاتِ شرعیہ کتابوں سے ملتی ہیں، لیکن کیفیاتِ احسانیہ کے حامل اوراقِ کتب نہیں ہو سکتے۔ یہ کیفیاتِ احسانیہ سینوں سے سینوں میں منتقل ہوتی چلی آ رہی ہیں، لہٰذا جب شیخ کے پاس جاؤ تو اضافۂ علم کی نیت نہ کرو، کیفیتِ احسانیہ کی ترقی کی نیت کرنا چاہیے۔ اعمال کی ترقی اور قبولیت احسان پر موقوف ہے کمیت پر موقوف نہیں،جیسے جہاز میں لوہا کم ہوتا ہے، اس کا حجم بھی کم ہوتا ہے اور ریل کا لوہا اور حجم زیادہ ہوتا ہے لیکن جہاز چھوٹا ہو چاہے ڈکوٹہ ہی ہو لیکن اپنی اسٹیم کی کیفیت کی وجہ سے یہاں سے چند گھنٹوں میں جدہ پہنچ جائے گا، جب کہ ریل کو پہنچنے میں کئی دن لگ جائیں گے۔ لہٰذا اپنے بزرگوں کی خدمت میں ہم جائیں تو یہ نیت کریں کہ کیفیت کی اسٹیم لینے جا رہے ہیں کہ کیوں کہ اگر علم کی نیت کی تو ممکن ہے کہ وہاں ایک علم کی بار بار تکرار ہو۔ اس تکرار سے بعض نادان گھبراتے ہیں کہ میاں! وہاں تو ایک ہی بات کو بار بار بیان کرتے ہیں،ایسا سمجھنا سخت نادانی ہے، تکرارِ علم قرآنِ پاک سے بھی ثابت ہے، ایک ہی آیت کتنی جگہ نازل ہوئی ہے۔ تکرارِ علم دلیلِ شفقت ہے۔ باپ اپنے بیٹوں سے بار بار کہتا ہے کہ بیٹا! اس گلی سے نہ جانا وہاں ------------------------------