خزائن الحدیث |
|
کرو لیکن مزدوری کی اُجرت اللہ تعالیٰ پر چھوڑدو جو چاہے آپ دے دیں۔ ہم رفعت کی نیت نہیں کرتے۔ آپ کی رضا کی نیت کرتے ہیں۔ ثمرہ تو ملے گا مگر بعض ثمرات ایسے ہیں کہ نیّات سے وہ خراب ہو جاتے ہیں یعنی بری نیت سے۔ بعض ثمرات ایسے ہیں کہ اگر ان کی نیت کر لی جائے تو نیت لِلہِ نہیں رہے گی۔ مَنْ تَوَاضَعَ کے بیچ میں لِلہِاس لیے داخل کیا تاکہ اللہ تعالیٰ کی عظمت کے سامنے دب جاؤ، اپنے کو اللہ کے سامنے مٹا دو کہ ہم کچھ نہیں ہیں تو ساری نعمتیں حاصل ہو جائیں گی۔ سبحان اللہ سے تزکیۂ اخلاق نصیب ہو گااوربِحَمْدِہٖ سے آپ کو ثنائے خلق یعنی حَسَنَۃً کی تفسیر مل جائے گی اور عظیم کی برکت سےاللہ تعالیٰ آپ کو عظیم فرمائیں گے مگر عظمت کی نیت نہ کرنا ،اپنے کو مٹا دو۔ میرے شیخ فرماتے تھے کہ حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ نے پوچھا کہ حضرت! تصوف کیا چیز ہے؟ فرمایا کہ آپ جیسے عالم فاضل کو مجھ جیسا طالب علم کیا بتا سکتا ہے لیکن جو اپنے بڑوں سے سنا ہے اسی کی تکرار کرتا ہوں کہ تصوف نام ہے اپنے کو مٹا دینے کا۔ اس کو مولانا رومی نے فرمایا کہ دیکھو چاند کا نور ذاتی نہیں ہے، سورج کے نور سے مستنیر ہے یعنی قمر مستنیر اور شمس منیر ہے، چاند مستفید ہے اور سورج مفید ہے لیکن ایسا کب ہوتا ہے؟ جب زمین کا گولا بیچ سے ہٹ جائے تب چودہ تاریخ کا چاند روشن ہوگا۔ جتنا جتنا زمین کا گولا آتا ہے چاند اندھیرا ہوتا جاتا ہے ایسے ہی جس کے نفس کا گولا جتنا اللہ اور دل کے درمیان آتا ہے اتنا ہی نفسانیت اور اخلاقِ رذیلہ سے اس کا دل اندھیرا ہوتا چلا جاتا ہے۔ جس کے دل کے اور اللہ کے درمیان میں پورا نفس آ گیا اس کا دل بالکل اندھیرا ہو گیا اور جس نے نفس کو پورا مٹا دیا اس کا دل بدرِ منیر کی طرح روشن ہو گیا۔ پھر اس کی تقریر میں بھی نورِ کامل ہو گا اور اس کی تحریر میں بھی نورِ کامل ہو گا اور اس کے لباس میں بھی نورِ کامل ہو گا اور جو شخص جتنا نفس نہیں مٹائے گا اس کے دل کا اتنا حصہ اندھیرا ہو گا مثلا بارہ آنے مٹایا اور چار آنے نہیں مٹایا تو چار آنے اندھیرا رہے گا اس کی تقریر میں، تحریر میں، قلم میں اور زبان میں۔ بس میں نے اپنے بڑوں سے جو سنا تھا وہ آپ کو سنا دیا، اللہ تعالیٰ قبول فرمائے۔ اب دعا کرو کہ جتنے حافظ ہوئے ان کو اللہ تعالیٰ عالم بھی بنا دے اور جتنے عالم ہیں ان کو با عمل بنا دے اور اختر کو، میری اولاد و ذرّیات کو، میرے احبابِ حاضرین کو، احبابِ غائبین کو، میرے طلبائے کرام کو، میرے حفاظِ کرام کو، ہمارے علمائے کرام کو، ہمارے اساتذہ کرام کو اور حاضرین عوام میں کسی کو محروم نہ فرما، ہم سب کو دنیا و آخرت دونوں جہاں دے دے، ہم سب کو اپنا دردِ دل بخش دے، اپنی محبت دے دے۔ اے اللہ! اولیاءاللہ کی نسبت نصیب فرما دے۔ ہم سب کو اپنا مقبول اور اپنا محبوب بنا لے۔