خزائن الحدیث |
|
۴) اَلْمُتَفَضِّلُ عَلَیْنَا بِدُوْنِ مَسْئَلَۃٍ وَّلَا سُؤَالٍ جو بغیر سوال اور بغیر مانگے ہوئے ہم پر مہربانی کر دے۔ بے شمار نعمتیں ایسی ہیںجو اللہ تعالیٰ نے بغیر مانگے عطا فرمائی ہیں، جیسے ہمارا ایمان محض حق تعالیٰ کا کرم ہے، اس میں ہماری کسی محنت کا دخل نہیں، عالمِ ارواح میں ہم بے زبان تھے، ہم نے سوال نہیں کیا تھا کہ اے اللہ! ہمیں مسلمان کے گھر میں پیدا کیجیے، لیکن بدونِ طلب اور بدونِ سوال مسلمان کے گھر میں پیدا کر کے ایمان عطا فرما دیا اور مفت میں جنت کا ٹکٹ دے دیا۔ اسی طرح ہر لمحہ بے شمار افضال و عنایات بدونِ سوال عطا فرماتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اے اللہ! آپ بہت معافی دینے والے ہیں اور کریم بھی ہیں کہ نالائقوں کو اور ناقابلِ معافی کو معاف فرما دیتے ہیں تُحِبُّ الْعَفْوَ اور صرف معاف ہی نہیں فرماتے، بلکہ اپنے بندوں کو معاف کرنا آپ کو نہایت محبوب ہے اَیْ اَنْتَ تُحِبُّ ظُھُوْرَ صِفَۃِ الْعَفْوِ عَلٰی عِبَادِکَ۔تُحِبُّ الْعَفْوَ کییہ شرح ملّا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے کیا عمدہ فرمائی کہ اپنے بندوں پر اپنی مغفرت کی صفت ظاہر کرنا آپ کو نہایت محبوب ہے یعنی اپنے گناہ گار بندوں کو معاف کرنے کا عمل آپ کو نہایت پیارا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ اللہ تعالیٰ کے مزاجِ الوہیت اور مزاجِ ربوبیت کو کون پہچان سکتا ہے، لہٰذا اپنی امت کو معافی دلانے کے لیے آپ کس کس عنوان سے حق تعالیٰ کی ثناء فرما رہے ہیں، کیوں کہاَلثَّنَاءُ عَلَی الْکَرِیْمِ دُعَاءٌ کریم کی تعریف کرنا اس سے مانگنا ہے، جیسے کسی کریم سے کہا جائے کہ آپ کسی کو محروم نہیں کرتے تو اس کے معنی ہیں کہ ہمیں بھی عطا فرما دیں،کیوں کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کواللہ تعالیٰ سے اُمت کو معافی دلوانی تھی،اس لیے آپ نے حق تعالیٰ کی صفتِ عفو کا واسطہ دیا کہ اے اللہ! آپ بہت معاف کرنے والے ہیں اور معاف کرنے کے عمل کو آپ خود محبوب رکھتے ہیں، لہٰذامعاف کرنے کے عمل کو جاری کرنے کے لیے کوئی سبب اور کوئی تحفہ تو ہونا چاہیے، لوگ بادشاہوں کے پاس جاتے ہیں تو شاہوں کے مزاج کے موافق تحائف لے کر جاتے ہیں۔ آپ تو بادشاہوں کے بادشاہ ہیں اورسلطان السلاطین ہیں،ہم آپ کے مزاج کو کیسے پہچان سکتے تھے کہ ہم حادث اورآپ قدیم ،ہم فانی اورآپ لافانی ،یہ تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا احسان ہے کہ ہم کو بتا دیا کہ اللہ تعالیٰ کا محبوب عمل ہم پر جاری ہونے کا راستہ توبہ و ندامت ہے، لہٰذا ہم گناہ گار اپنے گناہوں پر ندامت اور توبہ کی گٹھڑی کا تحفہ لے کر آپ کے پاس حاضر ہوئے ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سکھائی ہوئی درخواست کرتے ہیں کہ فَاعْفُ عَنِّیْ ہم گناہ گاروں کو معاف فرما کر اپنا محبوب عمل ہم پر جاری کر دیجیے۔ آپ کا محبوب عمل ہو جائے گا اور ہمارا بیڑا پار ہوجائے گا،