خزائن الحدیث |
|
کے حوالہ نہ کیجیے، ہمیں اپنے اس سایۂ رحمت میں رکھیے، جس کی نشان دہی آپ نے اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّیْ میں فرمائی ہے کہ میری رحمت کے بغیر تم اپنے آپ کو اس نفسِ امّارہ سے مستثنیٰ نہیں کرسکتے، کیوں کہ اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّیْ میرا مستثنیٰ ہے، یہ خالقِ نفسِ امّارہ کا مستثنیٰ ہے۔ تو اﷲ نے دونوں اپوزیشن کا ایسا علاج رکھا ہے کہ تم ربّا ہی ربّا کرتے رہو، جیسے جو ابّا ہوشیار ہوتا ہے وہ اپنے لڑکوں کو تھوڑا تھوڑا خرچہ دیتا ہے، تاکہ جب ختم ہوجائے تو پھر ابّا کو فون کرے کہ ابا! خرچہ ختم ہوگیا، بس کا کرایہ بھی نہیں، کھانے کو بھی کچھ نہیں۔ اسیطرح اﷲ تعالیٰ بھی تھوڑا تھوڑا رزق دیتے ہیں، ورنہ قادرِ مطلق ہیں،چاہتے تو سارا رزق ایک دم دے دیتے، مثلاً اگر اسّی سال زندگی دینا ہے تو اسّی سال کی روزی ایک ہی دفعہ دے دیتے تو پھر کون ان کو یاد کرتا؟آج کل کے ماڈرن لڑکوں کو دیکھ لو کہ اگر ابّا ایک دم سارا خرچہ دے دے تو کوئی ابّا کو سلام بھی نہیں کرے گا اور لندن کی ٹیڈیوں پر ریڈی رہے گا۔ تو اﷲ تعالیٰ ربّ العالمین نے ہمیں جو دو اپوزیشن دی ہیں، ان کے لیے ہمیںیہ حکم نہیں دیا کہ تم ان کے پیچھے پڑو یا ان سے لڑو، بلکہ یہ فرمایا کہ ہم سے فریاد کرو، ہم تمہیں توفیق دیں گے پھر تم ان پر غالب آجاؤ گے۔ اور اس کے بعد ایک دعا اور بھی ہے وَلَا تُشْقِنِیْ بِمَعْصِیَتِکَ اے اﷲ! اپنی نافرمانی سے مجھ کو بدنصیب نہ کیجیے۔ معلوم ہوا کہ گناہ میں خاصیت ہے بدقسمت کرنے کی بشرطِ عدمِ توبہ، اگر توبہ کی توفیق مل گئی تو توبہ کا کیمیکل ایسا ہے کہ شر کو خیر بنادیتا ہے، جیسے سرکہ شراب میں ڈال دو تو شراب سرکہ بن جاتی ہے اور سرکہ بن کر حلال ہوجاتی ہے۔ حدیثِ پاک میں ہے: کُلُّ بَنِیْ اٰدَمَ خَطَّاءٌ وَّ خَیْرُ الْخَطَّائِیْنَ التَّوَّابُوْنَ ملّا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ یہاں کُلُّ بَنِیْ اٰدَمَسے اُمت مراد ہے، انبیاء مراد نہیں ہیں، انبیاء مستثنیٰ ہیں، کیوں کہ انبیاء معصوم ہوتے ہیں، ان سے گناہوں کا صدور نہیں ہوتا۔ تو حضور صلی اﷲتعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ تم سب کے سب خطا کار ہو، مگرخَیْرُ الْخَطَّائِیْنَیعنی بہترین خطاکار کون ہے؟ اَلتَّوَّابُوْنَ۔ جو توبہ کرلے، تو جب خَطَّاءٌ ہو تو تَوَّابُوْنَ بنو، کثیر الخطا ہو تو کثیر التوبہ بنو، جیسا مرض ویسی دوا، اگر بخار تیز ہے تو دوا بھی تیز والی دی جائے گی۔ اور سرورِ عالم صلی اﷲتعالیٰ علیہوسلم کا کرم دیکھیے کہ خَطَّاءٌ کو بھی خیر فرمارہے ہیں، خَیْرُ الْخَطَّائِیْنَ یعنی جب توبہ کرلی تو خیر ہوگیا اور جب خیر ہوگیا تو پھر اس کو کیوں کہتے ہو کہ تم بڑے شریر ہو؟ اب اس کو گناہ کا طعنہ دینا جائز نہیں، ہر شخص سے یہ گمان رکھو کہ اس نے توبہ کرلی ہوگی۔ یہاںیہ اِشکال ہوتا ہے کہ جب توبہ کے کیمیکل میں یہ خاصیت ہے کہ وہ ہمارے شر کو خیر بنادے، تو