خزائن الحدیث |
وہ سامنے ہیں نظامِ حواس برہم ہے نہ آرزو میں سکت ہے نہ عشق میں دم ہے جب اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں جنت اور لذّاتِ جنت کی کوئی حقیقت نہیں تو دنیا کیا بیچتی ہے؟ کیوں کہ دنیا کی لذّتوں کی شراب نہ ازلی ہے نہ ابدی ہے یعنی دنیاپہلے نہیں تھی پھر اللہ نے پیدا کیا اور قیامت کے دن ہمیشہ کے لیے فنا کر دی جائے گی۔ تو دنیا کی شراب غیر ازلی، غیر ابدی اور جنت کی شراب ابدی، غیر ازلی ہے یعنی جنت ابدی تو ہے لیکن ازلی نہیں ہے، یعنی پہلے نہیں تھی پھر پیدا کر دی گئی اور کبھی فنا نہیں ہو گی لیکن ہمیشہ سے نہیں تھی اور اللہ تعالیٰ کی ذات ازلی اورابدی ہے یعنی اللہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ تو جنت کی شراب اللہ کی خاص ذات کو، اللہ کے نام کی لذت کواور اللہ کی محبت کے مزہ کو کہاں پا سکتی ہے؟ کیوں کہ جنت ابدی سہی لیکن شانِ ازلیت او ر لذتِ ازلیت سے محروم ہے اور جب اعلیٰ قسم کی چیز منہ کو لگ جاتی ہے تو ادنیٰ منہ کو نہیں لگتی۔ تو اولیاء اللہ جو اللہ کے نام کی لذت کو پا گئے، اللہ کی محبت کا مزہ جن کے منہ کو لگ گیا، جن پر اللہ کی محبت چھا گئی تو دنیا کی لذتوں کی شراب ان کے منہ کو کیا لگے گی جب کہ جنت بھی ان کو ثانوی درجہ میں ہو جاتی ہے لیکن جنت کو مانگتے ہیں، کیوں کہ محلِ دیدارِ الٰہی ہے اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے بھی اس کے سوال کا حکم دیا، کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وَ فِیۡ ذٰلِکَ فَلۡیَتَنَافَسِ الۡمُتَنَافِسُوۡنَ ؎ تم لوگ ہماری نعمتوں پر لالچ کرو۔ پس جب اللہ تعالیٰ اپنی نعمتوں پر ہمیں لالچ کرنے کا حکم دیں تو وہ ظالم ہے جو قناعت کرے ؎ چوں طمع خواہد ز من سلطانِ دیں خاک بر فرقِ قناعت بعد ازیں مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب وہ سلطانِ دیں ہم سے طمع چاہے تو قناعت کے سر پر خاک ڈالو۔ تو جس طرح اللہ کی رضاجنت سے بڑھ کر ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ کی ناراضگی دوزخ سے بڑھ کر ہے جس کی دلیل اس حدیثِ پاک کا دوسرا جز ہے کہ وَاَعُوْذُ بِکَ مِنْ سَخَطِکَ وَالنَّارِ سرورِ عالم صلی اللہ تعالیٰ ------------------------------