خزائن الحدیث |
|
علیہ وسلم نے پہلے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے پناہ مانگی اور دوزخ سے پناہ کو مؤخر فرمایا۔ یہاں بھی واؤ عطف کا ہے اور معطوف علیہ و معطوف میں مغایرت کو لازم کرتا ہے یعنی آپ کی ناراضگی اور جہنم کی عقوبت برابر نہیں ہو سکتی، آپ کا ناراض ہو جانا عذابِ جہنم سے بڑھ کر ہے، اسی لیے سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم عرض کرتے ہیں: اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ اَنْ تَصُدَّ عَنِّیْ وَجْھَکَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ؎ اے اللہ! میں پناہ چاہتا ہوں کہ قیامت کے دن آپ اپنا چہرہ مجھ سے پھیر لیں۔ دیکھو اگر باپ یا استاد یا شیخ اپنا چہرہ ناراضگی سے پھیر لے، تو لائق بیٹا اور لائق شاگرد اور لائق مرید پر کیا گزر جائے گی؟ پٹائی کے ڈنڈے سے زیادہ اس پر اپنے باپ یا شیخ کی ناراضگی شاق ہوتی ہے، اسی لیے سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی ناراضگی کو دوزخ پر مقدم فرمایا کہ عذابِ دوزخ کا سبب تو ان کی ناراضگی ہی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن کفار کو اپنی رؤیت سے محروم کرنے کو موقع سزا میں بیان فرمایا، جو حق تعالیٰ کی شانِ محبوبیت کی عظیم الشان دلیل ہے: کَلَّاۤ اِنَّہُمۡ عَنۡ رَّبِّہِمۡ یَوۡمَئِذٍ لَّمَحۡجُوۡبُوۡنَ ؎ ہر گز نہیں،یہ (کفار) قیامت کے دن اپنے رب کے دیدار سے محروم ہوں گے۔ بطور سزا کے محجوبی کا اعلان اللہ تعالیٰ کی شانِ محبوبیت پر دلالت کرتا ہے، کیوں کہ دنیا میں کسی سلطانِ وقت نے کسی مجرم کو یہ سزا نہیں سنائی کہ ہم تجھے اپنے دیدا ر سے محروم کرتے ہیں، کیوں کہ دنیوی بادشاہ حاکمِ محض ہوتے ہیں محبوب نہیں ہوتے۔ ان کے مجرمین توصرف سزا سے بچنا چاہتے ہیں، بادشاہوں کے دیدار کے حریص نہیں ہوتے لیکن موقعِ سزا میں حق تعالیٰ کے اس اعلان سے ثابت ہوا کہ ان کے دیدار سے محرومی کافروں کے لیے خود ایک عذاب ہوگی اور کفار سخت ضیق اور گھٹن میں ہوں گے۔ معلوم ہوا کہ اللہ سے دوری اور ان کی ناراضگی دوزخ سے بڑھ کر ہے، کیوں کہ جس سے اللہ ناراض ہوتا ہے اسی کو دوزخ میں ڈالے گا اور دوزخ کا حاصل اللہ تعالیٰ سے جدائی ہے اور جو گناہ کرتا ہے وہ دنیا ہی میں ------------------------------