خزائن الحدیث |
|
خطرناک مرض پیدا ہورہا ہے تو اس کو شفاء عطا فرما دیجیے۔ اسی طرح آخرت کے کاموں میں غفلت ہو رہی ہو، نماز روزہ میں سستی ہو رہی ہو تو اس کو دور فرما دیجیے، کسی گناہ کی عادت ہو تو اس سے توبہ کی توفیق دے دیجیے اور تقویٰ کی دولت عطا فرمادیجیے یعنی جسمانی صحت بھی عطا فرمائیے اور روحانی صحت بھی عطا فرمائیے اور ہماری بگڑی کو بنادیجیے اور اپنے نام کی لذت اور عبادت کی مٹھاس اور ایمان کی حلاوت نصیب فرما دیجیے اورکُلَّہٗ تاکید ہے یعنی ہماری کوئی حالت ایسی نہ رہنے پائے جس پر آپ اپنی نگاہِ کرم نہ ڈالیں اور ہماری بگڑی کو نہ بنا دیں۔ بس دنیا کی ہر حالت کی درستگی کی اور آخرت کی ہر حالت کی درستگی کی فریاد اَصْلِحْ لِیْ شَأْنِیْ کُلَّہٗ کے اس مختصر سے جملہ میں ہے۔ کلامِ نبوت کی جامعیت کا یہ اعجاز ہے۔ اور استغاثہ کا منفی مضمون وَلَاتَکِلْنِیْ اِلٰی نَفْسِیْ طَرْفَۃَ عَیْنٍ ہے اور جس کے خلاف یہ استغاثہ دائر کیا جا رہا ہے وہ مدعیٰ علیہ کون ہے؟ یعنی وہ کون دشمن ہے جس کے خلاف رحمتِ الٰہیہ کی عدالت میں یہ فریاد داخل کی جارہی ہے؟ وہ نفس ہے جس کا ذکر استغاثہ میں سرورِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرما رہے ہیں کہ سب سے بڑا دشمن میرا نفس ہے اور یہ اتنا بڑا دشمن ہے کہ پلک جھپکنے میں وار کر کے آدمی کو تباہ کر سکتا ہے۔ دیکھیے کتنا ہی بڑا دشمن ہو، حملہ کے لیے پہلے کچھ اسلحہ سنبھا لے گا، کچھ خود سنبھلے گا، وار کے لیے کچھ نشانہ لگائے گا، پلک جھپکتے ہی وار نہیں کر سکتا، لیکن یہ صرف نفس دشمن ہے جو پلک جھپکنے میں انسان کو ہلاک کر سکتا ہے، پلک جھپکی اور قصداً کفر کا عقیدہ دل میں ڈال دیا اور اسی وقت کافر بنا دیا، پلک جھپکنے میں کسی گناہ کا ارادہ دل میں ڈال دیا اور گناہ میں مبتلا کر کے فاسق بنا دیا، اسی لیے سرورِعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اُمت کو سکھا رہے ہیں کہ اے اللہ! پلک جھپکنے بھر کو مجھے میرے نفس دشمن کے حوالے نہ کیجیے۔ گھر کا دشمن باہر کے دشمن سے زیادہ خطر ناک ہوتا ہے۔ شیطان تو باہر کا دشمن ہے، وہ تو ایک بار وسوسہ ڈال کر چلا جاتا ہے کیوں کہ اس کے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ ایک ہی آدمی کے پیچھے لگا رہے لیکن نفس تو ہر وقت پہلو میں ہے لہٰذا بار بار گناہ کا تقاضا کرتا ہے۔ حضرت حکیم الامت فرماتے ہیں کہ شیطانی وسوسہ اور نفسانی وسوسہ میں یہی فرق ہے کہ اگر ایک بار گناہ کا تقاضا ہوا تو یہ شیطان کی طرف سے ہے اور جب بار بار گناہ کا تقاضا ہو تو ہوشیار ہوجاؤ کہ یہ نفس کی طرف سے ہے، اللہ تعالیٰ نے نفس کی حقیقت بتاد ی کہ: اِنَّ النَّفۡسَ لَاَمَّارَۃٌۢ بِالسُّوۡٓءِ ؎ یعنی نفس کثیر الا مر بالسوء ہے، بہت زیادہ برائی پر اُ کسانے والا ہے، لہٰذا نفس کے شر سے کون بچ سکتا ہے؟ ------------------------------