خزائن الحدیث |
|
قاری رحمۃ اللہ علیہ محدثِ عظیم لکھتے ہیں کہ حیا کی تعریف ہے فَاِنَّ حَقِیْقَۃَ الْحَیَاءِ اَنَّ مَوْلَاکَ لَا یَرَاکَ حَیْثُ نَھَاکَ؎ یعنی حیا کی حقیقتیہ ہے کہ تمہارا مولیٰ تم کو نافرمانی کی حالت میں نہ دیکھے، تب سمجھ لو کہ یہ بندہ حیا اور شرم والا ہے۔ آج آپ کسی بد نظری کرنے والے کو بے غیرت اور بے حیاکہہ دیں تو وہ مرنے مارنے کو تیار ہو جائے گا لیکن اللہ کے نزدیک یہ بے حیا ہے، کیوں کہ اللہ تو ہر وقت دیکھ رہا ہے۔ جو اللہ سے نہیں شرماتا اس میں حیا کہاں ہے؟ اس لیے ہر وقت اس کا خیال رکھو کہ اللہ ہم کو دیکھ رہاہے، میری نظرپر ان کی نظر ہے۔ میرا شعر ہے ؎ میری نظر پہ اُن کی نظر پاسباں رہی افسوس اس احساس سے کیوں بے خبر تھے ہم جس کو یہ استحضار ہو گا وہ شرابِ قہر اور عذاب کی مستی میں ان شاء اللہ تعالیٰ مبتلا نہیں ہو سکتا۔ خود بینی اور تکبر کی نحوست سے قلب کی بصیرت میں فساد آ جاتا ہے، جس کی وجہ سے بصارت فاسد ہو جاتی ہے اور ایسا شخص حق کو باطل اور باطل کو حق سمجھنے لگتا ہے۔ اہل اللہ اور مقبولانِ بارگاہ کے چہرۂ انور بدبختوں کو منحوس اور بُرے نظر آتے ہیں اور اہلِ باطل کے چہرے ان کو محبوب اور منور معلوم ہوتے ہیں۔ اس ابتلاء کا سبب ان کے باطن کا کبر اور اعراض ہوتا ہے کما قال تعالٰی: بَلۡ طَبَعَ اللہُ عَلَیۡہَا بِکُفۡرِہِمۡ ؎ ان کے مسلسل کفر اور کفر پر ہمیشہ قائم رہنے کی نیت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی اور یہ ظلم نہیں ہے، کیوں کہ ان کا ارادہ حق کو قبول کرنے کا تھا ہی نہیں اس لیے مہر لگا دی گئی، لہٰذا یہ عذابِ قہر ہے جو انبیاء اور اولیاء کے چاند جیسے چہروں کو کابوس (ڈراؤنی شکل) دِکھاتا ہے اور کفرکے تاریک کنویں کو خوشنما باغ دِکھاتا ہے۔ اپنی شقاوت اور کور باطنی (بد بختی اور بصیرت کے اندھے پن) اور قلبی فساد یعنی عجب و تکبر کے سبب انبیاء کی برابری کرنے لگے اور اولیاء اللہ کو حقارت کی نظر سے دیکھا اور ان کو اپنی طرح قیاس کیا،جیسا کہ حکایت ہے کہ ایک حبشی نے جنگل میں ایک آئینہ گرا ہوا دیکھااور اس کے اندر اپنی کالی صورت لمبے لمبے دانت اور موٹے موٹے ہونٹوں کو دیکھ کر آئینہ کو گالی دے کر کہا کہ کمبخت بدصورت! منحوس تیری ایسی ------------------------------