خزائن الحدیث |
|
جب اللہ کی محبت مانگی تو اس کے ساتھ اللہ کے عاشقوں کی محبت بھی مانگی اور اعمال کی محبت بھی مانگی: اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْاَلُکَ حُبَّکَ وَحُبَّ مَنْ یُّحِبُّکَ وَ الْعَمَلَ الَّذِیْ یُبَلِّغُنِیْ حُبَّکَ؎ اللہ تعالیٰ کی محبت اور اعمال کی محبت کے بیچ میں اللہ کے عاشقوں کی محبت مانگ کر سرورِ عالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے بتادیا کہ جس کو شیخ کی محبت مل جاتی ہے اس کو اللہ کی محبت بھی مل جاتی ہے اور اعمال کی توفیق بھی ہو جاتی ہے اور حدیث شریف اَلْمَرْءُ عَلٰی دِیْنِ خَلِیْلِہٖ سےمعلوم ہوا کہ ہر آدمی اپنے خلیل (گہرے دوست) کے دین پر خود بخود ہوجاتا ہے، لہٰذا جس کو اپنے شیخ کی محبت کم ہو گی، علیٰ سبیلِ خلت نہیں ہو گی، اس کے اندر شیخ کا دین، شیخ کا اخلاق، شیخ کا تعلق مع اللہ پورا منتقل نہیں ہو گا۔ خَلِیْلْکے معنیٰ ہیں گہرا دوست۔ دوستی اتنی گہری ہو کہ دل کے اندر داخل ہو جائے۔ اس حدیث کی شرح مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ نے یوں فرمائی ؎ مہرِ پاکاں درمیانِ جاں نشاں دل مدہ الّا بمہرِ دل خوشاں شیخ کی محبت کو، اللہ والوں کی محبت کو اپنی جان کے اندر رکھ لو، عقل میں نہیں، عقلی محبت کافی نہیں ہے، دماغ میں بھی نہیں، قلب میں بھی نہیں، صرف دل کی محبت بھی کافی نہیں ہے اور آگے بڑھو، دل کے درمیان کی محبت سے بھی آگے بڑھو، درمیانِ جان لے آؤ، روح کے اندر لے آؤ، جان کے اوپر اوپر والی محبت بھی کافی نہیں۔ یہ مولانا رومی کی بلاغت ہے، فرماتے ہیں کہ شیخ کی محبت کو جان کے اوپر ہی نہ رکھو، جان کے درمیان میں لے آؤ اور دل کسی کو مت دو، لیکن جن کے دل اچھے ہو گئے ہیں ان کو دل دو۔ اور دل کب اچھا ہوتا ہے؟ دل تو ایک ظرف ہے، برتن ہے، برتن کب اچھا ہوگا؟ جب اس میں اچھی چیز رکھوگے۔ اللہ کی محبت سے بڑھ کر کون سی چیز اچھی ہو سکتی ہے۔ بس جن کے دل اللہ کی محبت سے اچھے ہو گئے ان کو اپنا دل دے دو۔ تو اللہ والا بننے کے لیے اپنے شیخ کی محبت کو اللہ سے مانگو کہیااللہ! ہمارا شیخ ہمارا خلیل ہو جائے۔ سرورِعالم صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اَلْمَرْءُ عَلٰی دِیْنِ خَلِیْلِہٖ اگر سچا اللہ والا تمہارا خلیل ہو جائے گا اور ------------------------------