خزائن الحدیث |
|
ہے۔تو اس لیے شہید ہوا تاکہ کہا جائے کہ تو بڑا بہادر ہے۔ حکم ہو گا کہ اس کو جہنم میں ڈال دو۔ اسی طرح ایک قاری کو بلایا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ پوچھیں گے کہ تم قاری کس لیے بنے؟ کہے گا کہ اے اللہ! آپ کے لیے، اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ تو جھوٹ بولتاہے، تو نے قراء ت اس لیے کی تاکہ کہا جائے کہ تو بہت بڑا قاری ہے، اس کو بھی جہنم میں ڈالنے کا حکم ہو گا۔ پھرایک سخی کو بلایا جائے گا، اللہ تعالیٰ اس سے پوچھیں گے کہ مال کس لیے خرچ کیا؟ کہے گا کہ اے اللہ! آپ کے لیے،اللہ تعالیٰ فرمائیں گے:جھوٹ کہتا ہے، تو نے اس لیے خرچ کیا تاکہ کہا جائے کہ تو بہت بڑا سخی ہے۔ اس کو بھی جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ معلوم ہوا کہ دِکھاوا اتنا خطرناک مرض ہے کہ ایک شہید کی شہادت قبول نہیں ہوئی، ایک قاری کی قراءت قبول نہیں ہوئی اور ایک سخی کی سخاوت قبول نہیں ہوئی۔ جان بھی گئی، مال بھی گیا، قراء ت سیکھنے کی محنت بھی گئی اور جنت بھی نہ ملی، لہٰذا دل کو ٹٹولنا چاہے کہ ہم کس لیے عمل کر رہے ہیں اور اس مرض کے علاج کی فکر کرنی چاہیے۔ رِیا سے حفاظت کا اور اخلاص کے حاصل کرنے کا کیا طریقہ ہے؟ حضرت مفتی شفیع صاحب مفتئ اعظم پاکستان نے اپنے شیخ و مرشد حضرت حکیم الامت مجدد الملت حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے اس شعر کے متعلق پوچھا کہ حضرت! شاعر نے جو یہ کہا ہے کہ ایک منٹ کی صحبتِ اہل اللہ سو سال کی اخلاص والی عبادت سے بہتر ہے، تو کیایہ مبالغہ نہیں ہے؟ حضرت حکیم الامت تھانوی نے فرمایا کہ مفتی صاحب!یہ مبالغہ نہیں ہے، بلکہ شاعر نے کم بیان کیا ہے کہ ؎ یک زمانہ صحبتِ با اولیا بہتر از صد سالہ طاعت بے ریا شاعر کو یوں کہنا چاہیے تھا ؎ یک زمانہ صحبتِ با اولیا بہتر از لکھ سالہ طاعت بے ریا اللہ والوں کی صحبت ایک لاکھ سال کی اخلاص والی عبادت سے افضل ہے اور اس کی وجہ حضرت نے ملفوظات ’’حسن العزیز‘‘ میں بیان فرمائی کہ شیطان نے ہزاروں سال عبادت کی لیکن مردود ہونے سے نہ بچ سکا، لیکن اللہ والوں کا صحبت یافتہ مردود نہیں ہوتا، گناہ کا اس سے صدور تو ہو سکتا ہے، لیکن دائرۂ اسلام سے خروج نہیں ہو سکتا، ایمان ان شاء اللہ! اس کا سلامت رہے گا،حسنِ خاتمہ نصیب ہو گا اور اللہ والوں کا صحبت یافتہ گناہوں